علامہ صافی نے دہشت گردی اور بم دھماکوں کے متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے

روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی نے دہشت گردی اور بم دھماکوں کے متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی اور انتہا پسند گروہوں کی طرف سے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے بیان کا مطالبہ کیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے عراق میں داعش کی طرف سے کیے گئے جرائم کی تحقیق کے لیے بنائی گئی اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی UNITAD کی سربراہ اور مشیرہ اینا پیرو لوبیس اور ان کے ہمراہ وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔

آئے ہوئے وفد نے علامہ صافی کو داعش کی طرف سے مختلف فرقوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم، اجتماعی وانفرادی قبور اور قتل عام کی تحقیق اور اکتشاف کے بارے تفصیلی بریفنگ دی۔

علامہ صافی نے اپنی گفتگو کے آغاز میں عراق کی تاریخ، پوری تاریخ میں پھیلی ہوئی اس کی قدیم تہذیب، بہت سے علمی شعبوں میں دوسروں پر سبقت رکھتے والے اس کے کردار، سلطنت عثمانیہ کے عراق پر قبضے کے دوارن ہونے والے نقصانات، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران بڑی طاقتوں کے کنٹرول میں رہنے کے سبب اس کی تاریخ اور تہذیب کی چوری کے حوالے سے بات کی۔

علامہ صافی نے واضح کیا کہ سابقہ نظام ​​حکومت کے دوران دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حقائق کو مسخ کیا گیا اور ملک کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئیں، کیونکہ فاتح اور حکمران ہی تاریخ لکھنے والا تھا جس کے نتیجہ میں حقائق تبدیل کیے گئے، جس کی وجہ سے مظلوم کے لیے یہ بتانا مشکل ہو گیا کہ وہ کس ظلم وستم کا سامنا کر رہا ہے، اور کچھ تنظیمیں جو قیدیوں کی جگہوں اور جیلوں کا معائنہ کرنے آئی تھیں، انھیں قیدیوں تک رسائی نہیں دی جاتی تھی اور قیدخانوں پر خوراک کے گودام کا بورڈ لگا دیا جاتا تھا تاکہ معائنہ کار اس طرف نہ جائيں اور بہت سے حقائق بین الاقوامی رائے عامہ سے پوشیدہ تھے۔

علامہ سید صافی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عراق میں بہت سے حقائق دنیا کے سامنے نظر نہیں آتے ہیں، جس کی وجہ ان حقائق کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے والی ایک بامقصد ٹیم کی عدم موجودگی ہے۔

انھوں نے سبايكر قتل عام کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میںUNITAD کی کاوشوں کو قابل تعریف قرار دیا، اور کہا کہ عراق میں بڑے پیمانے پر ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا جن کے بارے میں کوئی درست رپورٹ موجود نہیں ہے، جن میں داعش سے پہلے دو جرائم بھی شامل ہیں پہلا جرم منظم انداز میں عراقی یونیورسٹی کے اساتذہ اور ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ جس پر میڈیا نے واضح انداز میں روشنی نہیں ڈالی اور دوسرا جرم داعش اور القاعدہ کی طرف سے کیے گئے ہولناک بم دھماکیں ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ عراق میں سامراجی قوتوں کے داخلے کے جواز کے طور پر ستمبر 2001ء کے بم دھماکے بھی پیش کیے گئے، حالانکہ ان بم دھماکوں میں کوئی عراقی ملوث نہیں تھا، اور بم دھماکے کرنے والے مجرموں کی شناخت اور قومیت واضح تھی، جبکہ عراق نے ایسے جرم کی قیمت ادا کی کہ جس کا اس نے ارتکاب ہی نہیں کیا، اور رائے عامہ کے سامنے یہ معادلہ واضح نہیں ہے۔

علامہ صافی نے کہا کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والے متاثرین کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم کی نشاندہی کرنے اور ان کا دفاع کرنے کے لیے کوئی معقول آواز نہیں تھی، اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو تسلی دینے اور ان کی بحالی کے لیے کوئی کوشش کی گئی، جبکہ عراقیوں کے خلاف انتہائی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے داعش کے لیڈروں کو کچھ ممالک کی طرف سے تحفظ حاصل تھا اور انہی ممالک نے ہی ان کی حمایت اور مالی بھی کی اور 2003ء کے بعد سے متاثرین کی خدمت، ظلم کے ازالے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی کوششں نہیں کی گئی۔

بین الاقوامی ٹیم کے سربراہ نے ٹیم کی کوششوں کی حمایت کرنے پر علامہ سید صافی اور روضہ مبارک کا شکریہ ادا کیا، اس بات پر زور دیا کہ ملک ایسے حالات سے گزرا ہے جن کو واضح کرنے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: