ام سعد اور امام حسین(ع) کے راستے میں سخاوت و عطاء کا سفر

ام سعد ہر سال کی طرح امسال بھی چہلم امام حسین(ع) کے احیاء کے لیے کربلا کی طرف جانے والے زائرینِ اربعین کا خرمقدم کرنے کے لیے تیار ہیں، انھوں پورے فخر کے ساتھ سوق الشیوخ کے وسط میں اپنا سادہ سا خیمہ نصب کیا ہوا ہے کہ جہاں ایمان اور عطاء کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔

ساٹھ سال سے زيادہ عمررسیدہ ام سعد کا موکب کافی سادہ ہے لیکن ان کا دل امام حسین(ع) اور ان کے اہل بیت(ع) کی محبت سے سرشار ہے لہذا وہ ان دنوں کا بے صبری سے انتظار کرتی ہیں کیونکہ یہ دن ان کے لیے خدا کی تقرب کا وسیلہ، اور سید الشہداء(ع) سے وفاداری کے اظہار کا ایک طریقہ ہیں۔




امام حسین(ع) سے وفاء
ام سعد محسوس کرتی ہیں کہ وہ چائے اور عربی کافی کا جو کپ بھی زائرین کو پیش کرتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خالص نذر ہے۔ وہ کہتی ہیں: اپنے موکب کی سادگی کے باوجود، میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ یہ عمل اللہ تعالی اور امام حسین(ع) کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرے اور وہ مجھے محشر کے دن اپنی شفاعت سے محروم نہ کریں۔

ان کے یہ الفاظ سچے دل سے ادا ہو رہے تھے، اور وہ "هلا بزوار أبو السجاد، هلا بزوار أبو علي" کی صدا بلند کرتے ہوئے پورے خلوص اور لگن کے ساتھ زائرینِ اربعین کی خدمت میں پیش پیش نظر آ رہی تھی اور انھیں کافی اور چائے پیش کر رہی تھیں۔




خدمت کا شرف
جب زائرین ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے ہیں تو ام سعد نے اپنے بچوں کی طرح ان کا خیر مقدم کرتی ہیں اور ان کے لیے کربلا کے سفر میں سلامتی اور قبولیت کی دعائیں کرتی ہیں۔ ام سعد سمجھتی ہیں کہ ظاہری طور پر چھوٹے سے چھوٹے عمل کے ذریعے سے بھی حسینی خدمت میں حصہ لینا ایک بڑا اعزاز ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے انسان کو توفیق کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب ان کے خیمے کے پاس سےگزرنے والے آخری زائر کو ام سعد نے الوداع کیا تو وہ اپنے خیمے کے سائے میں بیٹھ گئیں، ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگيں: اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو قبول کرے اور ساری زندگی زائرینِ امام حسین(ع) کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس طرح سے ام سعد ہر اس شخص کے لیے خلوص، لگن اور جوش وجذبہ کی علامت رہیں گی، جو امام حسین(ع) کے مشن کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہے، خواہ وہ کم ترین وسائل سے ہی کیوں نہ ہو۔

قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: