عراقی حدود میں گرنے والے امریکی جاسوس طیارے کی کہانی عباس عسکری یونٹ کی زبانی

عباس عسکری یونٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں عراق کے صوبہ مثنی کے صحراء میں گرنے والے امریکی جاسوسی طیارے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ 21 جولائی 2015 کو عباس عسکری یونٹ کو خبر ملی کہ صوبہ مثنی کے علاقے سماوہ کے صحراء میں ایک ڈرون جاسوسی طیارہ نظر آیا ہے جس کے بعد عباس عسکری یونٹ کے جہازوں کے مکینیکل ماہرین کی ایک ٹیم فوری طور پر وہاں پہنچی تو اس ڈرون طیارے کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ یہ امریکہ کا (MQ1) ساخت کا (207)نمبر طیارہ ہے۔
بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ تیسری مرتبہ ہے کہ جب امریکی افواج نے اپنے 40ملین ڈالر کی قیمت کے اس نوعیت کے جاسوسی طیارے کی گمشدگی کا اعلان کیا ہے سب سے پہلے اسی نوعیت کا ایک طیارہ 6 جنوری2011 میں ایرانی پاسداران نے اپنی ملکی حدود میں سائبر حملے کے ذریعے اتارا تھا اور امریکی دباؤ کے باوجود ایران نے وہ طیارہ واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اسے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کا عدم احترام قرار دیا تھا اور پھر بعد میں ایران نے اسی طیارے کی طرح کے مزید طیاروں کو بنانے کا بھی دعوی کیا تھا۔
امریکہ کا اسی نوعیت کا دوسرا طیارہ سوریا کی حدود میں گرا تھا۔
اور اب تیسری مرتبہ اس ساخت کا طیارہ عراقی حدود میں گرا تھا لیکن امریکی دباؤ کی وجہ یہ طیارہ دو دن کے اندر اندر امریکی فوج کے حوالے کردیا گیا اور ان دو دنوں میں بھی ہمارے ماہرین امریکی فوج کی وجہ سے اس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ کر سکے۔
لیکن اس طیارے کی صوبہ مثنی میں موجود گی اصحاب اقتدار اور پینٹاگون سے سوال پوچھتی ہے کہ امریکہ کا یہ جاسوسی طیارہ ایک پر امن علاقے میں کیا کر رہا تھا۔
اسی طرح عراقی حکومت کو چاہیئے تھا کہ طیارہ واپس کرنے سے پہلے تمام تر قانونی کاروائی کو مکمل کیا جاتا اور ماہرین کے ذریعے اس بات کی یقین دہانی کی جاتی کہ یہ طیارہ واقعی امریکہ کی ملکیت ہے یا نہیں اور دوسری بات اس طیارے کی عراقی حدود میں اس طرح سے موجودگی بین الاقوامی قوانین اور عراقی حدود کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: