الکفیل نیٹ ورک روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے ادارہ کی طرف سے پوری دنیا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آٹھویں جانشین اور مسلمانوں کے آٹھویں امام حضرت امام علی رضا بن موسی کاظم علیہ السلام کے جشن میلاد کے پر مسرت موقع پر مبارک باد پیش کرتا ہے~~~~~!!!!!!
امام علی رضا علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی:
اسم مبارک علیؑ
القاب رضا ، ضامن ، فاضل ، رضی
والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ
والدہ گرامی نجمہ خاتون
تاریخ ولادت 11ذیقعدہ13ھ
تاریخ شہادت 23 ذیقعدہ 203ھ
قبر مطہر مشہد مقدس (ایران)
امام رضا ؑکی امامت
183ھ میں ہارون کے قید خانہ میں حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ کی شہادت واقع ہوئی اور اس وقت امام علی رضا ؑ منصب امامت پر فائز ہوئے ، اس وقت آپ کی عمر مبارک 35سال تھی۔
آپ کی امامت بھی دیگر ائمہ معصومین ؑ کی طرح رسول خدا کی تعین و تصریح اور اپنے والد ماجد امام موسیٰ کاظم ؑ کی وصیت سے دوسروں پر ثابت ہوئی، قید ہونے سے پہلے امام موسیٰ کاظم ؑ نے لوگوں کو بتا دیا تھاکہ آپ کی شہادت کے بعد خدا کی آٹھویں حجت اور امام برحق کون ہے تاکہ حق کے خواہاں صراط مستقیم سے منحرف نہ ہونے پائیں۔
مخزومی کا کہنا ہے کہ امام موسیٰ کاظم ؑ نے ہم کو بلوایا اور فرمایا:
– کیا تم کو معلوم ہے کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں بلایا ہے؟
– نہیں ۔
اس لئے بلایا ہے تاکہ تم لوگ اس بات پر گواہ رہو کہ میرا یہ فرزند (امام رضا ؑ کی طرف اشارہ فرمایا)میرا وصی اور میرا جانشین ہے۔کتاب اعلام الوریٰ،ص304
’’یزید بن سلیط‘‘ کا بیان ہے کہ میں عمرہ بجالانے مکہ جارہا تھا۔ راستہ میں اما م موسیٰ کاظم ؑ سے ملاقات کی میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ اس جگہ کو آپ پہچانتے ہیں ؟ فرمایا: ہاں ، تم بھی اس جگہ کو پہچانتے ہو؟عرض کیا: ہاں ، میں نے اپنے والد گرامی کے ہمراہ آپ اور آپ کے والد ماجد حضرت امام جعفر صادق ؑ سے اسی جگہ ملاقات کی تھی تو آپ کے بارے میں آ گاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ تمام چیزیں جن کی ضرورت لوگوں کو پیش آئے گی ان سب کا انھیں علم ہے اور تمام دینی و دنیوی امور سے آگاہ ہیں ۔
اس وقت میں نے اما م موسیٰ کاظم ؑ سے عرض کیا: میرے والدین آپ پر نثار ہو جائیں آپ بھی مجھے اپنے والد ماجد کی طرح اس حقیقت سے آگاہ فرمائیں (کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا؟)
امام نے پہلے امامت کی عظمت و اہمیت بیان فرمائی اور فرمایا کہ امامت ایک امر الٰہی ہے اور خدا وپیغمبر ؐ کی طرف سے اس کا تعین ہوتا ہے اس کے بعد ارشاد فرمایا:
اَلْأَمْرُ إِلَى ابْنِي عَلِيٍّ سَمِيِّ عَلِيٍّ وَ عَلِيٍّ
میرے بعد امام میرے فرزند علی ؑ ہوں گے۔
اور وہ امام اول علی بن ابی طالب(ع) اور چوتھے امام علی بن الحسین(ع) کے ہم نام ہوں گے۔
اس وقت اسلامی معاشرے پر سخت پابندیاں و دشواریاں حکم فرما تھیں اس لئے امام موسیٰ کاظم ؑ نے اپنی گفتگو کے آخر میں ’’یزید بن سلیط‘‘ سے فرمایا:’’جو کچھ میں نے کہا ہے اس کو امانت کی طرح اپنے پاس محفوظ رکھنا اور صرف ان لوگوں سے بیان کرنا جن کی صداقت کا تمہیں یقین ہو۔‘‘
یزید بن سلیط کا کہنا ہے کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کی شہادت کے بعد امام علی رضا ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا قبل اس کے کہ میں کچھ عرض کرتا امام رضا ؑنے ارشاد فرمایا:’’اے یزید! میرے ساتھ عمرہ کرنے چل رہے ہو؟ ‘‘
عرض کیا : میرے والدین آپ پر فدا ہو جائیں جیسا آپ فرمائیں ۔ لیكن اس وقت میرے پاس سفر خرچ نہیں ہے۔
فرمایا: ’’تمام اخراجات میں برداشت کروں گا‘‘
حضرت امام علی رضا ؑ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ جس جگہ امام صادق ؑ اور امام کاظم ؑ سے ملاقات کی تھی وہاں پہونچا اور پھر میں نے وہاں آپ کے والد گرامی کے ساتھ ہونے والی ساری گفتگو تفصیل کے ساتھ عرض کردی کتاب اعلام الوریٰ، ص305/ کتاب کافی، جلد1، ص 316
امام رضا ؑ اور ولی عہدی
ائمہ معصومین ؑ عصمت وا مامت کی خاص منزل پر فائز ہیں ۔ وہ زمانہ کے تمام حالات سے خداوند عالم کی عطا کردہ علم و حکمت سے آگاہ ہیں ۔ اور وہ ہر زمانہ میں رہبری کے تمام تقاضوں سے پوری طرح واقف تھے وہ حقیقی طور سے اسلام کے محافظ تھے ۔ آٹھویں امام علی رضا ؑ ایک ایسے دور میں زندگی بسر کررہے تھے جب بنی عباس کی بدنام زمانہ حکومت اپنے عروج پر تھی ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے وہ بظاہر شیعوں اور ایرانیوں کو اپنے سے نزدیک رکھنا چاہتے تھے اور بنی عباس یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ خاندان اہلبیت ؑ سے بڑے اچھے تعلقات ہیں وہ اس طرح اپنی خلافت و حکومت کو بھی صحیح اور جائز ٹھہرانا چاہتے تھے۔ امام رضا ؑ نے مامون کی پُر مکروفریب روش کے مقابلہ میں وہ راستہ اختیار فرمایا جس سے مامون کا مقصد ناکام ہو جائے اور سارے مسلمان حق سے قریب ہو جائیں اور یہ جان لیں کہ خدا و رسول نے جس کو اپنا خلیفہ بنایا وہ اہلبیت ؑ ہیں امام رضاؑ ہیں مامون نہیں ہے۔
امام رضا ؑ نے مامون کی ولی عہدی اس انداز سے قبول فرمائی گویا قبول ہی نہیں فرمائی ہے لیکن یہ بات ہر ایک تک پہونچ گئی کہ مامون نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ امام علی رضا ؑ ہی امت کی امامت و خلافت کے لئے سزاوار ہیں ۔ مامون کے بیحد اصرار سے اورکچھ شرائط کے ساتھ امام نے ولی عہدی قبول فرمالی۔
ولی عہدی قبول کرنے کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اسلامی معاشرہ کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہوگ