عباس... جس بچے نے والد کو کھویا، لیکن زائرینِ عاشوراء کی خدمت میں اسے ایک محفوظ گھر مل گیا

کربلا کی سڑکوں، چلچلاتی دھوپ، عزاداروں کے جلوسوں، اور گرم صحرائی ہوا میں گونجتی نوحہ خوانی... انہی لمحوں میں ایک چھوٹا سا وجود، خاموشی و سرشاری سے زائرین کو پانی پیش کر رہا ہے۔ وہ آٹھ سالہ بچہ عباس ہے۔ نہ ہنستا ہے اور نہ زیادہ بولتا ہے، لیکن اُس کی آنکھوں کی چمک میں ایک پوری داستان قید ہے



عباس کم عمری میں ہی اپنے والد کے سایہ سے مرحوم ہو گیا، مگر اس یتیمی نے اس کا حوصلہ نہیں توڑا۔ اسے اپنے دادا کی آغوش میں شفقت و کفالت کے ساتھ ساتھ خدمتِ امام حسینؑ کا سلیقہ سیکھنے کو ملا، تب سے عباس ایک موکب میں زائرین کی خدمت کرنے والا ایک چھوٹا سا چہرہ بن کر ابھرا، جو اپنے ننھے ہاتھوں اور بڑے دل سے زائرین اور عزاداروں کو پانی پیش کرتا ہے۔



شرمیلے لہجے میں پانی کے برتن کی طرف دیکھتے ہوئے جب وہ بات کرتا ہے، تو اس کی معصوم مگر پُرخلوص آواز میں ایک بے مثال عقیدت جھلکتی ہے وہ کہتا ہے:
"مجھے لگتا ہے امام حسینؑ میرے والد ہیں، اور یہ موکب میرا گھر۔



ایسا لگتا ہے جیسے والد کے بچھڑنے نے اسے اس راہ میں مزید مضبوط کر دیا ہو۔ ہر قدم، ہر پانی کا قدح، اس کی روح و جاں کی گہرائیوں سے نکلتا ہوا خراجِ عقیدت اور —اس پناہ گاہ کا عملی اظہار تشکر ہے، جو ہر سال اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔



عباس کے دادا خدمتِ حسینی کو ایک تربیت کہتے ہیں، ایک ایسی روحانی درسگاہ جہاں وفا، قربانی اور عشق کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ان کے بقول، عباس اس نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو امام حسینؑ کی محبت میں پروان چڑھ رہی ہے، ایک ایسی نسل جو شعور اور جذبے کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔


عباس کی کہانی صرف ایک یتیم بچے کی داستان نہیں، بلکہ وہ نکتہ ہے جہاں امام حسینؑ کی محبت، خلوص، اور عقیدت ایسے لوگوں کو بھی پناہ گاہ اور گھر عطا کرتی ہے جنہوں نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ وہ بچے جو باپ کے سائے سے محروم ہو گئے، امام حسینؑ کی خدمت میں ایسا سائے دار گھر پاتے ہیں جو کبھی منہدم نہیں ہوتا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: