رسول اکرم(صلى الله عليه وآله) پر امام حسین(ع) کے زائر کا کیا حق ہے؟

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) ہمیں ملنے آئے تو ہم نے ام ایمن کی ہمیں ہدیہ کی ہوئیں کجھوروں، دودھ اور مکھن کو آنحضرت(صلى الله عليه وآله) کی خدمت میں پیش کیا، رسول خدا (صلى الله عليه وآله) اسے تناول کرنے کے بعد گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہو گئے اور چند رکعات نما ز ادا کی، جب رسول خدا (صلى الله عليه وآله) اپنے آخری سجدے میں تھے تو انھوں نے بہت زیادہ گریہ کیا، ہم میں سے کوئی بھی آنحضرت کے جلال و عظمت کے پیش نظر رونے کا سبب دریافت نہیں کر رہا تھا، اسی دوران امام حسین علیہ السلام اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور رسول خدا(صلى الله عليه وآله) کی گود میں جا کر بیٹھ گئے، اور پھر آنحضرت سے فرمایا: اے بابا جب آپ ہمارے گھر میں آئے تو آپ کے آنے کی ہمیں اتنی زیادہ خوشی ہوئی کہ جو ہمیں کسی بھی دوسری چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی، پھر آپ نے رونا شروع کر دیا اور آپ کے گریہ نے ہمیں غمگین کر دیا ہے آپ کو کس بات نے رلایا؟

تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے میرے بیٹے میرے پاس اس وقت جبرائیل تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ تم سب کو شہید کیا جائے گا اور تم سب کے شہید ہونے کی جگہیں مختلف ہیں۔

پھر امام حسین(ع) نے فرمایا: اے بابا جو شخص ہماری ان مختلف جگہوں پہ واقع قبروں کی زیارت کرے گا اس کا کیا اجر ہے؟

تو رسول اکرم(صلى الله عليه وآله) نے فرمایا: اے میرے بیٹے میری امت کے یہ گروہ تمھاری زیارت کے لیے آیا کریں گے اور اس کے واسطہ سے وہ خیر و برکت کی خواہش کریں گے، ان لوگوں کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں قیامت کے دن ان کے پاس جاؤں اور ان کو قیامت کی ہولناکیوں سے نجات دوں۔۔۔۔۔۔۔

یقینا زائر امام حسین(ع) کے لیے اس سے بڑھ کر کیا اجر ہو سکتا ہے کہ رسول خدا (صلى الله عليه وآله) خود اس کے پاس آئيں اور اسے قیامت کی ہولناک صورتحال سے بچا لیں۔۔۔
محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:
ھمارے شیعوں کو امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کا حکم دو کیونکہ آپ کی زیارت ھر اس مومن پر واجب ھے جو خدا کی طرف سے آپ کی امامت کا اقرار کرتا ھے۔

کامل الزیارات، ص۱۲۱؛ جامع الاخبار، ص۲۳، فصل نمبر ۱۱؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۳، باب۱، حدیث۸.
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا
جو شخص خدا کی خوشنودی کے لئے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جھنم سے نجات عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو امان دے گا، اور خداوندعالم سے دنیا و آخرت کی کوئی جو حاجت بھی طلب کرے گا خداوندعالم اس کی حاجت پوری کردے گا۔

کامل الزیارات، ص۱۴۵، باب۵۷، حدیث۷؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۲۰، باب۳، حدیث۹.
امام حسین علیه السلام کے زائروں کی عظمت
ابو الحسن جمال الدین علی بن عبد العزیز موصولی حلّی بزرگ ادیب، اھل بیت علیھم السلام کے مداح، ممتاز شاعر اور ایک فاضل انسان تھے کہ جو شہر حلہ میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، ان کا انتقال ۷۵۰ ھ میں شہر حلہ میں هوا اور آپ کا مزار شھر حلہ کی مشهور و معروف زیارتگاہ ھے۔
موصوف (جیسا کہ قاضی نور الله شوشتری نے کتاب المجالس میں اور زنوزی نے کتاب ریاض الجنة میں بیان کیا ھے) ناصبی ماں باپ سے پیدا هوئے، ان کی والدہ نے نذر کی تھی کہ اگر ان کے یہاں لڑکا پیدا هوا تو اس کو (حضرت امام) حسین (علیہ السلام) کے زائروں کی ڈاکا زنی اور غارت گری کے لئے تربیت کروں گی، تاکہ زائروں کو غارت کرے اور ان کو قتل کردے!
جب موصوف کی پیدائش هوئی اور عنفوان شباب میں قدم رکھا تو اپنی نذر پوری کرنے کے لئے زائروں کے راستہ پر بھیجا اور وہ جب کربلا کے نزدیک مسیب کے علاقے میں پہنچے ایک جگہ ان کو نیند آ گئی اور خواب میں دیکھا کہ زائروں کا ایک قافلہ راستہ سے گزر رہا ھے اور زائروں کے قافلے کی گرد و غبار اس کے چہرے پر آ رھی ھے، اسی موقع پر انھوں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا هو گئی ھے، حکم هوا کہ اس کو دوزخ میں ڈال دو، لیکن اس پاک گرد و غبار کی وجہ سے آگ اس کے چہرے تک نہیں پہنچ رھی ھے، اسی موقع پر ان کی آنکھ کُھل گئی درحالیکہ اپنے بُری نیت سے گھبرائے هوئے تھے۔
اس کے بعد سے موصوف اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کے شیدائی بن گئے اور ایک طولانی مدت تک کربلا میں مقیم اور حائر حضرت امام حسین علیہ السلام میں مقیم رھے اور ساری زندگی اھل بیت علیھم السلام کی مدح سرائی میں مشغول رھے، اور امام حسین(ع) کے قبر اقدس کے پاس کھڑے ہو کر اس نورانی رباعی کے ذریعہ اپنی مدح سرائی کا آغاز کیا:

اِٴذَا شِئْتَ النَّجٰاةَ فَزُرْ حُسَیناً
لِکَیْ تَلْقٰیٰ اِلا لہ قَرِیْرَ عَیْنِ

فاِنَّ النارَ لَیْسَ تَمَسُّ جِسْمَاً


عَلیہِ غُبارُ زوَّارِ الحسینِ.

اگر کوئی روز قیامت کی نجات چاہتا ھے تو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے، تاکہ خدا کی بارگاہ میں خوشنود حاضر هو، بے شک جھنم کی آگ اس جسم تک نہیں پہنچ سکتی کہ جس پر زائرین حسین(علیہ السلام) کی گرد و غبار هو۔

جب انھوں نے امام حسین(ع) کی بارگاہ میں یہ اشعار پڑھے تو اوپر سے انعام کے طور پر ایک پیراہن ان پہ آ گرا۔۔۔

کتاب الغدیر، ج۶، ص۱۲.
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: