یہ بات انہوں نے "الأرشيف الشفاهي السيد مرتضى الحلي" پروجیکٹ کے نگران سے ملاقات کے دوران کہی۔ اس موقع پر الحلی نے منصوبے کی حالیہ پیش رفت پر مفصل بریفنگ دی۔
سید الصافی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: انسان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی علمی، فکری اور تجرباتی میراث کو محفوظ کرے۔ اس عمل سے ناصرف آنے والی نسلیں فائدہ اٹھاتی ہیں بلکہ اس سے تخلیق و تحقیق کرنے والوں کا حق بھی محفوظ رہتا ہے۔ افسوس کہ تاریخ میں ہماری کئی اہم کامیابیاں یا تو ضائع ہو گئیں یا پھر انہیں دوسروں سے منسوب کر دیا گیا، اور اس کی بڑی وجہ بروقت دستاویز بندی کا فقدان ہے۔ اس پس منظر میں یہ منصوبہ ہمارے علماء، مفکرین اور نمایاں شخصیات کی فکری و سوانحی میراث کو محفوظ کرنے کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے عراق کے تمام شہروں میں عمر رسیدہ افراد کے تجربات سے استفادے کی ضرورت پر زور دیا، چاہے وہ عام سادہ طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان کے بقول: ان بزرگوں کی یادداشتوں میں ایسی قیمتی معلومات ہو سکتی ہیں جو کسی ایک شہر کی تاریخ، وہاں کی معیشت، پیشوں، مقامی شخصیات اور طرزِ زندگی کے خدوخال کو واضح کر سکتی ہیں۔ ممکن ہے ان کی کسی بات میں وہ نکتہ پوشیدہ ہو، جو محققین اور مورخین کے کسی دیرینہ سوال کا جواب فراہم کر دے، جس کا کوئی تحریری حوالہ موجود نہیں۔
منصوبے کے نگران مرتضیٰ حلی نے کہا: یہ منصوبہ روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے زیر اہتمام شروع کیا گیا ہے، جس کا مقصد ان یادوں اور تاریخی لمحات کو زبان دینا ہے، جنہیں بھلانے یا محو کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ درحقیقت اس قوم کی علمی و تہذیبی شناخت کو محفوظ کرنے کی سعی ہے، جس کی عظمت کے مظاہر نجف، کربلا، کاظمین، حلہ اور دیگر علمی مراکز میں نظر آتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ منصوبے کا دوسرا مرحلہ جاری ہے، جو گزشتہ دو سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے: ہم نے عراق کے مختلف طبقات خصوصاً علماء، اساتذہ، دانشوروں، سماجی شخصیات اور فکری رہنماؤں کے ساتھ تفصیلی انٹرویوز کیے ہیں، تاکہ ان کی یادداشتوں میں محفوظ تاریخی حقائق کو قلمبند کیا جا سکے۔ اس منصوبے کے ذریعے ہمیں ناصرف تاریخ بلکہ عراقی معاشرے کی اس اخلاقی عظمت کو جاننے کا موقع ملا، جو اس کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔"
یہ منصوبہ حوزہ علمیہ کے علماء کی علمی و روحانی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے شروع کیا گیا ہے، جس میں ایسے علماء اور شخصیات کی زبانی شہادتیں ریکارڈ کی جا رہی ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے علمی و سماجی ماحول کا مشاہدہ کیا۔ اس کا مقصد حوزہ کی تاریخ کے تسلسل کو محفوظ رکھنا اور ان دنوں کی یادداشتوں کو تاریخ کے صفحات پر محفوظ کرنا ہے۔



