اہل کربلا نے 3صفر 1437هـ کی رات شام کے زندان میں شہید ہونے والی امام حسین(ع) کی کم سن بیٹی جناب رقیہ(ع) کی یاد میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک سے لے کر حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ مبارک تک لمبا طویل ترین دستر خوان لگایا کہ جس سے مومنین نے تبرک حاصل کیا۔
حضرت رقیہ(ع) کی شہادت۔۔ تاریخ بشریت کا ایک المناک صفحہ۔۔
دس محرم اہل بیت رسول کی خواتین اور بچوں کے لیے ایسے مصائب کی ابتدا ثابت ہوا کہ جن کی نظیر پوری تاریچ بشریت میں نہیں ملتی ۔۔۔۔ اپنے عزیزوں کی شہادت اور شام غریباں کے ہولناک مصائب کا سامنا کرنے کے بعد اگلے دن کا سورج ان چھلنی دل خواتین اور بچوں کے لیے اسیری اور قید وبند کا پیغام لے کر آیا۔۔۔۔۔۔
اسیران کربلا کے اس قافلے میں حضرت امام حسین(ع) بیٹی حضرت رقیہ(ع) بھی شامل تھیں کہ جنھوں نے تین یا چار سال کی اس کم سنی میں مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر گرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔
تاریخی کتابوں میں مذکور ہے کہ جناب رقیہ کی شہادت دمشق کے اس کھنڈر میں ہوئی جہاں اسیران کربلا کو قید کیا گیا تھا۔۔۔
حضرت رقیہ(س) کی شہادت کا واقعہ ملا حسین کاشفی نے کتاب روضة الشہداء، ساتویں صدی ہجری کے بزرگ عالم عماد الدین طبری نے اپنی کتاب ''کامل''(کامل بہایی) اور بہت سے علماء نے اپنی کتابوں میں یوں لکھا ہے کہ حضرت رقیہ(س) زندان میں نیند سے اٹھیں اور روتے ہوئے بولیں: این ابی؟ میرے بابا کہاں ہیں؟ اس کے بہت گریہ کرنے لگيں اور جب یزید نے اس بچی کے رونے کی آواز کو سنی تو حکم دیا کہ امام حسین(ع) کا سر اقدس اس بچی کے پاس بھیج دیا جائے، جب اپنے بابا کے سر اقدس کو دیکھا تو اسی وقت وفات پائی۔
اس بات کا میں یہاں ذکر کرتا چلوں کہ تاریخی کتابوں میں یہ بات ثابت ہے کہ زندان شام میں حضرت امام حسین(ع) کی ایک چار سالہ بیٹی شہید ہوئيں تھیں اور ان کی شہادت کا واقعہ بھی ایک ہی طرح بیان کیا جاتا ہے البتہ ہمارے ہندوستان اور پاکستان میں یہ واقعہ حضرت سکینہ(ع) کے بارے میں معروف ہے جبکہ ایران، عراق اور دوسرے ممالک میں یہی واقعہ حضرت رقیہ کے حوالے سے معروف ہے۔
حضرت رقیہ کے بارے میں آستان رضوی کی سائٹ سے اخذ شدہ ایک مفید مقالہ ذیل میں درج ہے:
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا حضرت امام حسین علیہ السلام کی وہ بیٹی ہیں جو کربلا کے واقعہ میں موجود تھیں اور اپنے انداز شہادت کے ذریعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے دوسرے اہلبیت علیہم السلام کی طرح کربلا اور مظلومیت کی تاریخ میں بے مثال کردار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کا نام ’’رقی‘‘ سے ہے جس کا مطلب بلند ہونا اورترقی کی منازل طے کرنا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ نام (رقیہ)حضرت کا لقب تھا جبکہ ان کا اصلی نام فاطمہ سلام اللہ علیہا تھا۔فاطمہ اور علی(علیہما السلام ) دو ایسے نام ہیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے نہایت اہمیت رکھتے تھے اس مطلب کی طرف تاریخی کتب میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں فاطمہ نامی ایک چھوٹی بچی تھی۔حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ گرامی سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ اپنی ہر بیٹی کا نام فاطمہ رکھتے تھے جیسا کہ اپنے ہر بیٹے کا نام اپنے والد بزرگوار کے نام نامی پر علی رکھتے تھے۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کی والدہ ماجدہ امّ اسحاق تھیں جن کا شمار اسلام کی باعظمت اور بافضیلت خواتین میں سے تھا۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کا سن مبارک
شہادت کے وقت حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کا سن مبارک بعض روایات کی بنا پر تین سال، چارسال،پانچ سال، اور بعض روایات میں سات سال تک نقل ہوا ہے۔
عاشور میں حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا نے واقعہ عاشور کی عظمت کو خاص جلوہ اور رنگ دیا ہے۔سرخ حسینی تحریک کے متن میں اس خردسال بچی کی موجودگی کوئی سادہ یا معمولی اتفاق نہیں تھا۔
مقتل نویسوں اور تاریخ نگاروں کی گواہی کے مطابق حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کربلا کے خونین واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد ۶۱ ہجری میں ہوئی جب وہ تین یا چار سال کی تھیں اور حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا سے متعلق ایک تعجب آور نکتہ شاید یہی مطلب ہو کہ یہ بی بی اس قدر چھوٹی عمر میں تاریخی سرحدوں سے عبور کرتے ہوئے جاودانگی تک پہنچ گئیں جس طرح آپ کے شیرخوار بھائی شہزادۂ علی اصغر علیہ السلام اس مقام و منزلت پر فائز ہوئے۔ دوسرے الفاظ میں واقعۂ عاشور کے عظیم ترین حوادث میں اس حادثے کی شخصیات کا سنی تفاوت تھا جو شہزادۂ علی اصغر علیہ السلام کے چھوٹے سن سے شروع ہوکر حبیب ابن مظاہر جیسے عمر رسیدہ صحابی پر ختم ہوا۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا نے کربلا سے کوفہ تک اور کوفہ سے شام تک جو مصائب اور شدائد تحمل کیے اس قدر تلخ اور دہشت آور ہیں جو ہر با وجدان انسان اور حر شخص کے دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں اور اس کے دل اور روح کو مجروح کردیتے ہیں۔ پیاس کی شدت میں کربلا کی شدید گرمی کو تحمل کرنا،اپنے قریبی عزیزوں کے مقتل اور جائے شہادت پرحاضر ہونا،اسیر ہونا اور اسرا ءکے ساتھ نہایت شقاوت آمیز روئیے کو مشاہدہ کرنا،بہت زیادہ روحی و جسمی شکنجے تحمل کرنا،شام کے ویرانے میں اپنے والد بزرگوار کے لیے اداس ہونا وغیرہ جیسےتلخ حوادث ہیں جن سے لطیف جسم و روح رکھنے والی یہ کم سن بچی روبرو تھی۔
بعض روایات میں اس طرح ملتا ہے کہ حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا عاشور کے دن اپنی تین سالہ بہن(قوی احتمال کی بنا پر یہ تین سالہ بہن حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا ہیں) سے کہتی ہیں:’’آؤ بابا کے دامن کو پکڑ لیں اور انہیں شہید ہونے کے لیے نہ جانے دیں‘‘۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے یہ کلمات سن کر نہایت گریہ کیا اس وقت حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا نے کہا :بابا! ہم آپ کو نہیں روکتیں بس اتنا صبر کرلیں کہ جی بھر کے آپ کو دیکھ لیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا اور ان کے خشک ہونٹوں کا بوسہ لینے لگے۔انہیں لمحات میں اس لاڈلی بیٹی نے ’’العطش العطش کی فریاد بلند کرتے ہوئے کہا بابا میں بہت پیاسی ہوں، پیاس کی شدت نے میرے جگر کو جلا ڈالا ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے انہیں کہا:خیمے کے پاس بیٹھو تو میں تمہارے لیے پانی لاؤں،امام حسین علیہ السلام اٹھے تاکہ میدان میں جائیں پھر حضرت رقیہ نے والد بزرگوار کا دامن تھام لیا اور روتے ہوئے کہا:بابا کہاں جارہے ہیں؟حضرت امام علیہ السلام نے ایک مرتبہ پھر انہیں اپنی آغوش میں لیا اور تسلی دی اور پھر نہایت غمگین حال میں ان سے جدا ہوئے۔
حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کی شہادت اور اُن کا نورانی مرقد
واقعہ عاشور کے بعد دشمن نے تمام زندہ افراد کو اسیر کرلیا انہیں اسراء میں ایک چھوٹی بچی بھی قابل دید تھی یہ حضرت رقیہ تھیں۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی یہ چھوٹی بیٹی اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اپنی پھوپھی کے ہمراہ اسیر ہو کر شام کی طرف جارہی تھیں۔
شام کے ویرانے سے ایک بچے کی آواز سنائی دیتی ہے
اسرا ءمیں موجود تمام افراد کو یہ علم تھا کہ یہ آواز حضرت امام حسین علیہ السلام کی معصوم چھوٹی بیٹی حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کی ہے۔حضرت رقیہ نیند سے بیدار ہوگئی ہیں اور اپنے والد بزرگوار کے بارے میں پوچھ رہی ہیں گویا اپنے والد بزرگوار کا خواب دیکھا ہےیزید لعین نے حکم دیا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کو دکھایا جائے۔جب حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے کٹے ہوئے سر اقدس کو دیکھا تو فریاد کرتے ہوئے خود کو والد بزرگوار کے سر پر گرا دیا اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
تیسرے امام کی تین سالہ بیٹی کی ملکوتی آرامگاہ شام میں ’’باب الفرادیس‘‘کے ساتھ پر ہجوم ترین تاریخی قدیمی کوچوں اور گلیوں میں ہے۔ہر سال اہلبیت علیہم السلام کےبہت زیادہ عقیدت مند دنیا کے مختلف نقاط سے اس مقدس مقام کی زیارت کے لیے مشرف ہوتے ہیں۔