اہلِ مواکب شعائر حسینی کے قیام اور زائرین کی خدمت میں پیسہ صرف کرنے کی بجائے اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ اور رفاعی کاموں میں کیوں خرچ نہیں کرتے

عراق میں حسینی و ماتمی انجمن کو موکب کہا جاتا ہے ہر موکب کا بنیادی مقصد عزاداری اور شعائر حسینی کا قیام ہوتا ہے۔

عراقی عوام اور عراق کے حالات سے آگاہی رکھنے والے لوگ یہ بات باخوبی جانتے ہیں کہ عراق میں موجود حسینی انجمنوں کے ارکان اور اہل مواکب ناصرف پورا سال شعائر حسینی و عزادری کے قیام اور زائرین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں بلکہ ہر طرح کے رفاع عامہ اور فلاح و بہبود کے کاموں کو بھی اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں اور ضرورت مند افراد کی ہر ممکن مدد کرتے ہيں۔

جب وہابیت کی پیروکار عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے عراق کے علاقوں پہ حملہ کر کے ان پہ قبضہ کیا تو وہاں کے رہنے والے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں آ گئے جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر آنے والے افراد جب دوسرے شہروں میں پہنچے تو تمام این جی اوز، خیراتی اداروں اور حکومت سے پہلے ان حسینی انجمنوں اور مواکب نے ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکنے والے مہاجرین کو گلے لگایا اور ان کی رہائش اور دوسری ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی کا انتظام کیا اور اب تک اہل مواکب مہاجرین کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔

جنگ زدہ علاقوں اور داعش کے زیر کنٹرول شامی اور عراقی مناطق سے آنے والے مہاجرین کے لیے عراق میں سب زیادہ کام انہی مواکب اور حسینی انجمنوں نے کیا ہے اور ان کی خدمت کے لیے حکومت، اقوام متحدہ اور تمام این جی اوز سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے اور اب بھی اہل مواکب اس انسانی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھ ادا کر رہے ہیں۔

اور جب اعلی دینی قیادت نے داعش کے خلاف جہاد کفائی کا فتویٰ دیا تو اس وقت بھی انہی مواکب اور حسینی انجمنوں نے داعش کے خلاف جنگ کے لیے افرادی اور مالی طاقت فراہم کی کہ جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے داعش کے خلاف جنگ آج بھی انہی مواکب اور حسینی انجمنوں کی عطا کردہ طاقت سے جاری ہے۔

اتنے سارے کاموں میں حصہ لینے والے یہ اہل مواکب اور حسینی انجمنوں کے ارکان ہر سال کی طرح اس سال بھی اربعین امام حسین(ع) کے موقع پہ آنے والے کروڑوں زائرین کو گزشتہ تین ہفتوں سے کھانے پینے رہائش میڈیکل اور ہر طرح کی دوسری سہولیات مفت فراہم کر رہے ہیں جن کو دیکھ کر بعض لوگ کہتے ہیں:

اہلِ مواکب شعائر حسینی کے قیام اور زائرین کی خدمت میں پیسہ صرف کرنے کی بجائے اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ اور رفاعی کاموں میں کیوں خرچ نہیں کرتے؟

میں نے یہی سوال بعض مواکب اور انجمنوں کے افراد سے کیا ان سب نے جو جواب دیا اس کا مفہوم ایک ہی بنتا ہے کہ جو ان کے امام حسین(ع) سے گہرے تمسک کو واضح کرتا ہے۔ ان سب کے جوابوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:

ہر طرح کے شعائر حسینی کے قیام اور عزاداری کے برپا کرنے سے ہمارے اندر امام حسین(ع) سے محبت و عقیدت بڑھتی ہے اور ان کے اصولوں اور مشن سے ہمارے تمسک میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور ہماری حسینی روح کو ایک بھرپور نئی زندگی ملتی ہے جس کی بدولت ہم ہر وقت انسانیت کی خدمت اور فلاح وبہبود کے ہر کام کے لیے تیار رہتے ہیں اور شہداءِ کربلا کی طرح باطل طاقتوں اور ظالموں سے ٹکرانے کا عزم و حوصلہ ہمارے اندر تیز شعلوں کی طرح بھڑکتا رہتا ہے۔ شعائر حسینی کا قیام ہماری حسینی روح کے لیے سانس اور دھڑکن کی مانند ہے کہ جس کے بغیر ہمارے اندر حسینی روح کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے لہذا حسینی روح کو زندہ رکھنے، اسانیت کی خدمت، امام حسین(ع) کے مشن کو آگے بڑھانے اور باطل پرستوں و دہشت گردوں سے ٹکرانے کے لیے شعائر حسینی کا قیام کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: