روضہ مبارک حضرت عباس(ع) حضرت فاطمہ معصومہ(س) بنت امام موسیٰ کاظم(ع) کی وفات پرتمام مومنین کو تعزیت پیش کرتا ہے

10ربیع الثانی 201ھجری میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا نے قم المقدس میں وفات پائی۔

آج 10ربیع الثانی کے دن روضہ مبارک حضرت عباس(ع)کے خدام پوری دنیا میں رہنے والے محبانِ اہل بیت علیھم السلام کو حضرت فاطمہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا کی وفات پہ تعزیت پیش کرتے ہیں۔

حضرت معصومہ قم کے مختصر حالات زندگی اور ان کی کرامات

اسم مبارک: آپ کا اسم مبارک فاطمہ(ع) ہے۔

لقب: آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔

والد: آپ کے والد گرامی خدا کی طرف سے نامزد کردہ رسول خدا کے ساتویں جانشیں اور امت کے امام حضرت موسی کاظم بن جعفر صادق(ع) ہیں۔

والدہ: آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت نجمہ خاتون ہے اور یہی برگزیدہ خاتون حضرت امام رضا(ع) کی بھی والدہ محترمہ ہیں۔

تاریخ و مقام ولادت: آپ کی ولادت با سعادت اول ذیقعدہ سال ۱۲۳ھجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

ابتدائی زندگی: بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق باپ کی شفقت سے محروم ہو گئیں۔ آپ کے والد کی شہادت ہارون کے قید خانے بغداد میں ہوئی۔

۲۰۰ہجری میں مامون عباسی کے بے حد اصرار اور دھمکیوں کی وجہ سے امام رضا(ع) مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے خراسان چلے گئے اس سفر میں آپ اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا۔

معصومہ(س) کی خراسان روانگی: امام رضا(ع) کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے معصومہ قم(س) نے بھی وطن کو الوداع کہا اور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی جانب روانہ ہوئیں۔

ہر شہر میں آپ کا والہانہ استقبال ہو رہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ حضرت زینب(س) کی سیرت پرعمل کر کے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی جلاوطنی مسلمانوں تک پہنچا رہی تھیں۔

حکومتی کارندوں کا قافلے پر حملہ: جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو کچھ دشمنان اہل بیت(ع) راستے میں حائل ہو گئے اور حضرت معصومہ(س) کے قافلے پر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں قافلہ کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش کیا۔

ایک روایت کے مطابق ان ظالموں نے حضرت معصومہ(س) کو بھی زہر دے دیا۔

قم روانگی: حضرت معصومہ(س) اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفرکو جاری رکھنا نا ممکن ہوگیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیا اور آپ نے پوچھا اس شہر(ساوہ) سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے؟ اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: "شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے"

حضرت معصومہ(س) کی آمد کی خبر سے مطلع ہوتے ہی بزرگان قم کے درمیان ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑ پڑے۔ موسی بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھوں نے آپ کی مہار ناقہ کو آگے بڑھ کر تھام لیا۔ اور بہت سے لوگ جو سوار اور پیادہ تھے پروانوں کی طرح اس کاروان کے ارد گرد چلنے لگے۔ 23 ربیع الاول سال 201 ہجری کو آپ کے مقدس قدم قم کی سرزمین پر آئے۔ پھر اس محلّے میں جسے آج کل ""میدان میر"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی نتیجتاً آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسی بن خزرج کو مل گیا۔ معصومہ(س) کی جائے عبادت اور قیامگاہ مدرسہ ستیہ جو آج کل "بیت النور" کے نام سے مشہور ہے جو اب حضرت معصومہ(س) کے عقیدت مندوں کی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے۔

آپ کی وفات: اس عظیم ہستی نے صرف سترہ(17) دن اس شہر میں زندگی گزاری اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے راز ونیاز اور عبادت میں مشغول رہیں۔

آخر کار روز 10 ربیع الثانی اور ایک قول کے مطابق(12ربیع الثانی) 201ھ قبل اس کے آپ(س) کی چشم مبارک امام رضا(ع) کے چہرہ منور کی زیارت کرتیں، غریب الوطنی میں بہت زیادہ غم اندوہ دیکھنے کے بعد بند ہو گئیں۔

قم کی سر زمین آپ کے غم میں ماتم کدہ بن گئی۔ قم کے لوگوں نے کافی عزت واحترام کے ساتھ آپ(س) کے جنازہ کو امام رضا(ع) کی مدد سے باغ بابلان جو کہ اس وقت شہر سے باہر تھا میں دفن کیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: