پھر سے اعلیٰ دینی مرجعیت نے اصحاب اقتدار سے حکومتی امور کو چلانے، حکومت کے مال کی حفاظت کرنے اور خیانت سے بچنے کے لیے حضرت علی(ع) کی روش کو اپنانے کا مطالبہ کیا ہے.

نجف اشرف میں موجود سپریم دینی رہنما آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ العالی) کے نمائندے علامہ سید احمد صافی(دام عزہ) نے (24جمادى الأولى 1437هـ) بمطابق(4مارچ 2016ء) کو روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں کہا ہے کہ اس ملک میں جو بھی کسی منصب پہ فائز ہے اسے حضرت علی(ع) کی طرف سے اپنے گورنر محمد بن أبي بكر کے لیے لکھے گئے آئین حکومت پر عمل کرنا چاہیے۔

اس آئین حکومت یا عھد نامہ میں حضرت علی نے ہر صاحب منصب سے فرمایا ہے :

كتب (عليه السلام) في عهده الى محمد بن أبي بكر حين قلّده مصر يرشده كيف يتعامل مع أهلها، قال: (فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَكَ وأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ وابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ وآسِ بَيْنَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ والنَّظْرَةِ حَتَّى لا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ لَهُمْ ولا يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ).

لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا،ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا،کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان(بڑوں) کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔
وكتب الى أحد ولاته وهو الأسود بن قطبة يأمره بالعدل بين الناس فقال: (إِنَّ الْوَالِيَ إِذَا اخْتَلَفَ هَوَاهُ مَنَعَهُ ذلِكَ كَثِيراً مِنَ الْعَدْلِ، فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً، فَإِنَّهُ لَيْسَ فِي الْجَوْرِ عِوَضٌ مِنَ الْعَدْلِ، فَاجْتَنِبْ مَا تُنْكِرُ أَمْثَالَهُ، وَابْتَذِلْ نَفْسَكَ فِيَما افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْكَ، رَاجِياً ثوَابَهُ، وَمُتَخَوِّفاً عِقَابَهُ).

دیکھو! جب حاکم کے رجحانات(مختلف اشخاص کے لحاظ سے) مختلف ہوں گے،تو یہ امر اس کو اکثر انصاف پروری سے مانع ہو گا۔ لہٰذا حق کی رو سے سب لوگوں کا معاملہ تمہاری نظروں میں برابر ہونا چاہیے کیونکہ ظلم انصاف کا قائم مقام کبھی نہیں ہو سکتا اور دوسروں کے جن کاموں کو تم بُرا سمجھتے ہو ان سے اپنا دامن بچا کر رکھو،اور جو کچھ خدا نے تم پر واجب کیا ہے اسے انہماک سے بجالاتے رہو،اور اس کے ثواب کی امید اور سزا کا خوف قائم رکھو۔
وكتب (عليه السلام) الى بعض عمّاله ممّن خان الأمانة واستحوذ على الأموال العامّة قائلاً: (كَأَنَّكَ إِنَّمَا كُنْتَ تَكِيدُ هَذِهِ اَلْأُمَّةَ عَنْ دُنْيَاهُمْ وَتَنْوِي غِرَّتَهُمْ عَنْ فَيْئِهِمْ فَلَمَّا أَمْكَنَتْكَ اَلشِّدَّةُ فِي خِيَانَةِ اَلْأُمَّةِ أَسْرَعْتَ اَلْكَرَّةَ وَعَاجَلْتَ اَلْوَثْبَةَ وَاِخْتَطَفْتَ مَا قَدَرْتَ عَلَيْهِ مِنْ أَمْوَالِهِمُ اَلْمَصُونَةِ لِأَرَامِلِهِمْ وَأَيْتَامِهِمُ اِخْتِطَافَ اَلذِّئْبِ اَلْأَزَلِّ (سريع الوثبة) دَامِيَةَ اَلْمِعْزَى اَلْكَسِيرَةَ فَحَمَلْتَهُ إِلَى اَلْحِجَازِ رَحِيبَ اَلصَّدْرِ بِحَمْلِهِ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ مِنْ أَخْذِهِ كَأَنَّكَ لاَ أَبَا لِغَيْرِكَ حَدَرْتَ إِلَى أَهْلِكَ تُرَاثَكَ مِنْ أَبِيكَ وَأُمِّكَ فَسُبْحَانَ اَللَّهِ أَمَا تُؤْمِنُ بِالْمَعَادِ أَوَ مَا تَخَافُ نِقَاشَ اَلْحِسَابِ أَيُّهَا اَلْمَعْدُودُ كَانَ عِنْدَنَا مِنْ أُولِي اَلْأَلْبَابِ كَيْفَ تُسِبغُ شَرَاباً وَطَعَاماً وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ تَأْكُلُ حَرَاماً وَتَشْرَبُ حَرَاماً وَتَبْتَاعُ اَلْإِمَاءَ وَتَنْكِحُ اَلنِّسَاءَ مِنْ أَمْوَالِ اَلْيَتَامَى وَاَلْمَسَاكِينِ وَاَلْمُؤْمِنِينَ وَاَلْمُجَاهِدِينَ اَلَّذِينَ أَفَاءَ اَللَّهُ عَلَيْهِمْ هَذِهِ اَلْأَمْوَالَ وَأَحْرَزَ بِهِمْ هَذِهِ اَلْبِلاَدَ فَاتَّقِ اَللَّهَ وَاُرْدُدْ إِلَى هَؤُلاَءِ اَلْقَوْمِ أَمْوَالَهُمْ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ ثُمَّ أَمْكَنَنِي اَللَّهُ مِنْكَ لَأُعْذِرَنَّ إِلَى اَللَّهِ فِيكَ وَلَأَضْرِبَنَّكَ بِسَيْفِي اَلَّذِي مَا ضَرَبْتُ بِهِ أَحَداً إِلاَّ دَخَلَ اَلنَّارَ وَوَاَللَّهِ لَوْ أَنَّ اَلْحَسَنَ أوَ اَلْحُسَيْنَ فَعَلاَ مِثْلَ اَلَّذِي فَعَلْتَ مَا كَانَتْ لَهُمَا عِنْدِي هَوَادَةٌ وَلاَ ظَفِرَا مِنِّي بِإِرَادَةٍ حَتَّى آخُذُ اَلْحَقَّ مِنْهُمَا وَأُزِيحَ اَلْبَاطِلَ عَنْ مَظْلَمَتِهِمَا).

اور اُس امت کے ساتھ اس کی دنیا بٹورنے کے لیے چال چل رہے تھے اور اس کا مال چھین لینے کے لیے غفلت کا موقع تاک رہے تھے چنانچہ اُمت کے مال میں بھر پور خیانت کرنے کا موقع تمہیں ملا،تو جھٹ سے دھاوا بول دیا اور جلدی سے کود پڑے اور جتنا بن پڑا اس مال پر جو بیواؤں اور یتیموں کے لیے محفوظ رکھا گیا تھا یوں جھپٹ پڑے جس طرح پھرتیلا بھیڑیا زخمی اور لاچار بکری کو اچانک لیتا ہے اور تم نے بڑے خوش خوش اُسے حجاز روانہ کر دیا اور اسے لے جانے میں گناہ کا احساس تمہارے لیے سد راہ نہ ہوا۔ خدا تمہارے دشمنوں کا بُرا کرے ،گویا یہ تمہارے ماں باپ کا ترکہ تھا جسے لے کر تم نے اپنے گھر والوں کی طرف روانہ کر دیا۔اللہ اکبر،کیا تمہارا قیامت پر ایمان نہیں؟ کیا حساب کتاب کی چھان بین کا ذرا بھی ڈر نہیں؟ اے وہ شخص جسے ہم ہوش مندوں میں شمار کرتے تھے، کیونکر وہ کھانا اور پینا تمہیں خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور حرام پی رہے ہو۔تم ان یتیموں،مسکینوں، مومنوں اور مجاہدوں کے مال سے جسے اللہ نے ان کا حق قرار دیا تھا اور ان کے ذریعہ سے ان شہروں کی حفاظت کی تھی،کنیزیں خریدتے ہو اور عورتوں سے بیاہ رچاتے ہو، اب اللہ سے ڈرو اور ان لوگوں کا مال انہیں واپس کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور پھر اللہ نے مجھے تم پر قابو دے دیا تو میں تمہارے بارے میں اللہ کے سامنے اپنے کو سر خرو کروں گا اور اپنے اس تلوار سے تمہیں ضرب لگاؤں گا جس کا وار میں نے جس کسی پر بھی لگایا وہ سیدھا دوزخ میں گیا۔ خدا کی قسم حسن(ع) و حسین(ع) بھی وہ کرتے جو تم نے کیا ہے تو میں ان سے بھی کوئی رعایت نہ کرتا اور نہ وہ مجھ سے اپنی کوئی خواہش منوا سکتے یہاں تک کہ میں ان سے حق کو پلٹا لیتا اور ان کے ظلم سے پیدا ہونے والے غلط نتائج کو مٹا دیتا۔
رحمك الله يا سيّدي يا مولاي يا أمير المؤمنين، ووفّقنا دائماً للاهتداء والاقتداء بسنتّك..

نوٹ: امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کلام کا ترجمہ مرحوم مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ کے نہج البلاغہ کے ترجمہ سے لیا گیا ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: