اعلیٰ دینی قیادت کا ارباب اختیار کو ظلم اور لوگوں سے زیادتی سے منع کرنے کے حوالے سے حضرت امیرالمومنین(ع) کے کلام کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ.....

اعلیٰ دینی قیادت کا ارباب اختیار کو ظلم اور لوگوں
اعلی دینی قیادت کے نمائندے اور روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ شیخ عبد المھدی کربلائی(دام عزہ) نے 1 جمادی الثانی 1437 ھ بمطابق 11 مارچ 2016 ء کو صحن حسینی میں نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ سے خطاب کرتے ہوئے حکومت اور ارباب اختیار کو ظلم اور لوگوں سے زیادتی سے منع کرنے کے حوالے سے حضرت امیرالمومنین(ع) کے کلام کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ جس میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

في هذه الخطبة نقرأ وفق دأبنا في الأسابيع الأخيرة بعض كلمات إمامنا أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب(عليه السلام) أيّام خلافته وفيها دروس مهمّة لمَنْ هم في مواقع المسؤولية، فمن كلامٍ له(عليه السلام) يتبرّأ فيه من الظلم والتعدّي على حقوق الناس قوله:
وَاللَّهِ لَأَنْ أَبِيتَ عَلَى حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّداً أَوْ أُجَرَّ فِي الْأَغْلَالِ مُصَفَّداً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظَالِماً لِبَعْضِ الْعِبَادِ وَغَاصِباً لِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْحُطَامِ وَكَيْفَ أَظْلِمُ أَحَداً لِنَفْسٍ يُسْرِعُ إِلَى الْبِلَى قُفُولُهَا وَيَطُولُ فِي الثَّرَى حُلُولُهَا.

.خدا کی قسم ! مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنا اور طوق و زنجیر میں مقید ہوکر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ او ر اس کے رسول سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیاہو۔ یامال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو،میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتاہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے ۔
ثم وصف(عليه السلام) كيف تعامل مع أخيه عقيل عندما طلب من بيت المال أزيد من استحقاقه: (وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ عَقِيلًا وَقَدْ أَمْلَقَ حَتَّى اسْتَمَاحَنِي مِنْ بُرِّكُمْ صَاعاً وَرَأَيْتُ صِبْيَانَهُ شُعْثَ الشُّعُورِ غُبْرَ الْأَلْوَانِ مِنْ فَقْرِهِمْ كَأَنَّمَا سُوِّدَتْ وُجُوهُهُمْ بِالْعِظْلِمِ وَعَاوَدَنِي مُؤَكِّداً وَكَرَّرَ عَلَيَّ الْقَوْلَ مُرَدِّداً فَأَصْغَيْتُ إِلَيْهِ سَمْعِي فَظَنَّ أَنِّي أَبِيعُهُ دِينِي وَأَتَّبِعُ قِيَادَهُ مُفَارِقاً طَرِيقَتِي فَأَحْمَيْتُ لَهُ حَدِيدَةً ثُمَّ أَدْنَيْتُهَا مِنْ جِسْمِهِ لِيَعْتَبِرَ بِهَا فَضَجَّ ضَجِيجَ ذِي دَنَفٍ مِنْ أَلَمِهَا وَكَادَ أَنْ يَحْتَرِقَ مِنْ مِيسَمِهَا فَقُلْتُ لَهُ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ يَا عَقِيلُ أَ تَئِنُّ مِنْ حَدِيدَةٍ أَحْمَاهَا إِنْسَانُهَا لِلَعِبِهِ وَتَجُرُّنِي إِلَى نَارٍ سَجَرَهَا جَبَّارُهَا لِغَضَبِهِ أَ تَئِنُّ مِنَ الْأَذَى وَلَا أَئِنُّ مِنْ لَظَى .

بخدا میں نے (اپنے بھائی)عقیل کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا ،یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصہ کے)گیہوں کے ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے او ر میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھرے ہوئے اور فقر و بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے گویا ان کے چہرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دیئے گئے ہیں ۔وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو باربار دھرایا میں نے ان کی باتوں کو کا ن دے کر سنا تو انہوں نے یہ خیا ل کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کے پیچھے ہوجاؤں گا ۔مگر میں نے کیایہ کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا ا ور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں ۔چنانچہ وہ اس طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد وکرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا بدن اس داغ دینے سے جل جائے ۔پھر میں نے ان سے کہا کہ اے عقیل رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم ا س لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں (بغیر جلانے کی نیت سے )تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے ۔تم تو اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں.
ثم حكى(عليه السلام) ما قاله لمن أراد أن يستميله بتقديم هديّة اليه: (وَأَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ طَارِقٌ طَرَقَنَا بِمَلْفُوفَةٍ فِي وِعَائِهَا وَمَعْجُونَةٍ شَنِئْتُهَا كَأَنَّمَا عُجِنَتْ بِرِيقِ حَيَّةٍ أَوْ قَيْئِهَا فَقُلْتُ أَ صِلَةٌ أَمْ زَكَاةٌ أَمْ صَدَقَةٌ فَذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَقَالَ لَا ذَا وَلَا ذَاكَ وَلَكِنَّهَا هَدِيَّةٌ فَقُلْتُ هَبِلَتْكَ الْهَبُولُ أَ عَنْ دِينِ اللَّهِ أَتَيْتَنِي لِتَخْدَعَنِي أَ مُخْتَبِطٌ أَنْتَ أَمْ ذُو جِنَّةٍ أَمْ تَهْجُرُ وَاللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ وَإِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي لَأَهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فِي فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا مَا لِعَلِيٍّ وَلِنَعِيمٍ يَفْنَى وَلَذَّةٍ لَا تَبْقَى نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ وَقُبْحِ الزَّلَلِ وَبِهِ نَسْتَعِينُ .

اس سے عجیب تر واقع یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت (شہد میں )گندھا ہو ا حلوہ ایک برتن میں لیے ہوئے ہمارے گھر پرآیا۔جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسو س ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یا زکوٰة ہے یا صدقہ ہے کہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے ۔تو اس نے کہا کہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ تحفہ ہے ۔تو میں نے کہا کہ مردہ عورتیں تجھ پر روتیں کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کے لیے آیا ہے ۔کیا تو بہک گیا ہے؟ یاپاگل ہوگیا ہے یا یونہی ہذیاں بک رہا ہے ۔خدا کی قسم !اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں ۔صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کرو ں گا۔ یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہوکہ جسے وہ چبا رہی ہو۔ علی(ع) کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذ ّتوں سے کیا واسطہ ۔ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں ۔
ومن كلامٍ له(عليه السلام) خاطب به مَنْ أكثروا الثّناء عليه: (لا تُكَلِّمُونِي بِمَا تُكَلَّمُ بِهِ الْجَبَابِرَةُ، ولا تَتَحَفَّظُوا مِنِّي بِمَا يُتَحَفَّظُ بِهِ عِنْدَ أَهْلِ الْبَادِرَةِ -أي عند أهل الغضب- ولا تُخَالِطُونِي بِالْمُصَانَعَةِ -أي بالمجاملة- ولا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقَالاً فِي حَقٍّ قِيلَ لِي ولا الْتِمَاسَ إِعْظَامٍ لِنَفْسِي فَإِنَّهُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ أَنْ يُقَالَ لَهُ أَوِ الْعَدْلَ أَنْ يُعْرَضَ عَلَيْهِ كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَا أَثْقَلَ عَلَيْهِ فَلا تَكُفُّوا عَنْ مَقَالَةٍ بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ ولا آمَنُ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِي إلاّ ان يكفيَ الله من نفسي ما هوَ أملكُ به مِنّي فإنّما أنا وانتم عبيدٌ مملوكونَ لِربَّ لا رَبَّ غيرُه – يملكُ مِنَّا ما لا نملكُ من أنفُسِنَا .

مجھ سے ویسی باتیں نہ کیا کرو ۔جیسی جابر سر کش فرمانرواؤں سے سیکھی جاتی ہیں ۔اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو ۔جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیاجاتا ہے اور مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو ۔میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میر ے سامنے کو ئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیا ل کرو کہ میں یہ درخواست کرو ں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو ۔کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اورعدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو ۔اسے حق او رانصاف پر عمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگاتم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو ۔میں تو اپنے کو ا س سے بالا تر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں اور نہ اپنے کسی کا م کو لغزش سے محفوظ سمجھتاہوں ۔مگر یہ کہ خد ا میرے نفس کو اس سے بچائے کہ جس پر وہ مجھ سے زیادہ اختیار رکھتا ہے ۔ہم او رتم اسی رب کے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی رب نہیں ۔وہ ہم پر اتنا اختیا ر رکھتا ہے ۔کہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیا ر نہیں رکھتے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: