حضرت زینب(س) کی المناک شھادت پہ روضہ مبارک حضرت عباس(ع) تمام امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتا ہے.....

پندرہ رجب کے دن کا سورج اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والوں کے لیے غم وحزن اور درد ناک یادوں کے ہمراہ طلوع ہوتا ہے یہ وہ دن ہے جس میں ثانی زہراء حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے مختصر حالات زندگی:

حضرت زینب سلام اللہ علیھا حضرت علی( ع) اور حضرت فاطمہ زہراء( س) کی بیٹی اور حضرت پیغمبر اکرم( ص) کی نواسی ہیں ۔ آپ(س)نہایت ہی بافضیلت خاتون تھیں ۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں’’ انت بحمد اللہ عالمة غیر معلمة فہمة غیر مفہمة“ کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب سلام علیہا) عالمہ غیرمعلمہ هیں اور ایسی دانا کہ آپ(س) کو کسی نے پڑھایا نهیں هے. ۔حضرت زینب(س) کو معصوم کردار حضرت علی اورحضرت فاطمہ زہراعلیہما السلام کے ورثے میں ملے حضرت اما م حسن علیہ السلام کا حسن وتدبیر جہاں جناب زینب سلام اللہ علیھا کے احساس عظمت کی بنیاد بنا وہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کا عزم واستقلال علی علیہ السلام کی بیٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گیا ، تاریخ اسلام میں زینب نے ایک منفرد مقام پایا اور ایساعظیم کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گیا۔

حضرت زینب بنت علی(ع) کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسین علیہ السلام کے مقدس مشن کو تکمیل یقینی بنایا آپ(س) نے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا تحفظ وپاسداری میں اپناکردار اس طرح ادا کیا کہ جیسے حضرت ابوطالب علیہ السلام نے حضرت رسول خدا (ص)کی پرورش میں اپنے بھتیجے کے تحفظ کے لئے اپنی اولاد کو نچھا ور کرنا پسند کرتے تھے کیونکہ حضرت ابو طالب علیہ السلام کاایک هی ہدف تھا کہ حضرت محمد مصطفی(ص) بچ جائیں وارث اسلام بچ جائیں اسی طرح حضرت زینب بنت علی(ع) کا ہدف هے کہ اسلام بچ جائے دین بچ جائے چاهے کوئی بھی قربانی دینی پڑے اسی لئے تاریخ میں حضرت زینب(س) کی قربانی کی مثال نهیں ملتی یہ شجاع باپ حضرت علی(ع) کی بیٹی هے جس کی شجاعت کا لوہا بڑے بڑوں نے مانا تھا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت ہجرت کے پانچویں سال اورجمادی الاولیٰ کی 5 تاریخ کواپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے ایک سال بعد ہوئی، روایت کی گئی کہ جس وقت جناب زینب بنت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی ولادت با سعادت هو ئی تو رسول اللہ(ص)کو ولادت کی خبر دی گئی آپ بہ نفس نفیس حضرت فاطمہ الزہراء علیہا السلام کے گھر تشریف لائے اور فاطمہ زہرا سے فرمایا اے میری بیٹی ،اپنی بچی کو مجھے دو پس جب کہ شہزادی نے زینب بنت علی علیہما السلام کو رسول اکرم (ص)کے سامنے پیش کیا تو رسول اللہ (ص)نے جناب زینب (س) کو اپنی آغوش میں لے کر بحکم خدااس بچی کانام زینب رکھا اس لئے کہ زینب کے معنی هیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں ”زین “معنی زینت اور ”اب“معنی باپ کے هیں یعنی باپ کی زینت هیں ،اپنے سینہ ٴ اقدس سے لگالیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی(ع) کے رخسار مبارک پر رکھ کر بلند آواز سے اتنا گریہ کیا کہ آپ(ص) کے آنسوں آپ(ص) کی ریش مبارک پر جاری هوگئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا اے بابا جان آپ کے رونے کا کیا سبب هے اے بابا آپ کی دونوں آنکھوں کو اللہ نے رلایا نهیں هے ؟تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا اے میری بیٹی فاطمہ (س)آگاہ هو جاؤ کہ یہ بچی تمہارے اور میرے بعد بلاؤں میں مبتلاهوگی اور اس پر طرح طرح کے مصائب پڑیں گے پس یہ سن کرحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بھی گریہ کیا اور پھر فرمایا اے بابا جان جو شخص میری اس بیٹی اور اس کے مصائب پر گریہ کرے گا تو اس کو کیا ثواب ملے گا ؟ تورسول اللہ(ص) نے فرمایا اے میرے جگر کے ٹکڑے اور اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ، جو شخص زینب(س) کے مصائب پر گریہ کنا هوگا تو اس کے گریہ کا ثواب اس شخص کے ثواب کے مانند هوگا جو جناب زینب (س)کے دونوں بھائیوں پر گریہ کرنے کا هے۔

جب عصر عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام رخصت آخر کے لئے بہن زینب سلام اللہ علیھا کے پاس تشریف لائے تو آپ(ع) نے فرمایا میری بہن زینب (س) نماز شب میں مجھے فراموش نہ کرنا ۔ حضرت زینب (س) نے کربلا کے میدان میں اپنے بھائي بھتیجوں ، بچوں اور عزیزوں کی شہادت کے بعد صبر کا سہارا لیا البتہ یہ اپنی تسکین کے لئے نہیں بلکہ صبر کا سہارااس لئے لیا کہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔ ان کا صبر با مقصد تھا ،چنانچہ تیر وتلوار سے لیس دشمنوں کا ظاہری رعب و دبدبہ خاک میں مل گيا ۔حضرت زینب (س) اس قدر فصیح و بلیغ خطبہ بیان فرماتیں کہ آپ کے ایک ایک جملے لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے ۔آپ گھر میں ،مسجد میں اور جہاں بھی ممکن ہوتا لوگوں کے درمیان خطبہ دیتیں تاکہ امام حسین (ع) کا مشن بھلایا نہ جاسکے اور ان کی تحریک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجائے ۔ اسیری کے بعد جب حضرت زينب (س) دیگر اسیران اہل حرم کے ہمراہ دربار یزید میں لائی گئیں تو آپ نے اپنے بے مثال خطبے سے جس سے شجاعت اور پائمردی کا بھر پور اظہار ہورہا تھا سب کو ششدر کرکے رکھ دیا آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا : اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نےہمیں اس موڑ پرلاکھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے ۔خدا کی قسم ، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی ہوں اوراس کے سوا ، کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی ۔اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کرسکتا ہے کرلے ۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لئے تو جتنی بھی سازشیں کرسکتا ہے کرلے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اورتاریخ سے نہيں مٹاسکتا اورچراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا ، خدا کی نفرین و لعنت ہوظالموں اور ستمگروں پر حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد زیادہ عرصے حیات نہیں رہیں لیکن اسی مختصر سے عرصے میں کوشش کی کہ لوگوں کے ذہنوں پر پڑے جہالت و گمراہی کے پردے کو ہٹادیں اور انہیں غفلت سے نجات دلادیں اوراسی طرح معاشرے میں اہل بیت پیغمبر (ص) کے محوری کردار کو اجاگر کریں ۔ حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کے واقعات اورحالات کو اس طرح سے سنبھالا کہ پوری کائنات کے لئے حضرت امام حسین (ع) اور ان کے مشن کی حقانیت واضح کردی حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کے تقریبا" ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کودرجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: