ماں، باپ، اولاد اور ہمسایوں کے حقوق.....

نجف اشرف میں موجود سپریم دینی رہنما آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی(دام ظلہ العالی) کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی(دام عزہ) نے4 رمضان المبارک1437هـ بمطابق 10 جون 2016 ء کو صحن حسینی میں نماز جمعہ کےدوسرے خطبہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے امام زین العابدین علیہ السلام کے بیان کردہ بعض حقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایاہے:
(فحقّ أُمِّك أن تعلم أنَّها حملتك حيث لا يحمل أحدٌ أحداً، وأطعمتك من ثمرة قلبها ما لا يُطْعِم أحدٌ أحداً، وأنَّها وقتك بسمعها وبصرها ويدها ورجلها وشعرها وبشرها وجميع جوارحها مستبشرةً بذلك فرحةً موبلة (أي كثيرةٌ عطاياها)، محتملةً لما فيه مكروهها وألمها وثقلها وغمّها، حتى دفعتها عنك يدُ القدرة وأخرجتك إلى الأرض فَرَضِيَتْ أن تشبع وتجوع –هي-، وتكسوك وتعرى، وترويك وتظمأ، وتظلّلك وتضحى، وتنعمك ببؤسها، وتلذّذك بالنوم بأَرِقهَا، وكان بطنها لك وعاءً، وَحِجْرها لك حواءً، وثديها لك سقاءً، ونفسها لك وقاءً، تباشر حرّ الدنيا وبردها لك دونك، فتشكرها على قدرِ ذلك ولا تقدر عليه إلّا بعون الله وتوفيقه).
ﻣــــﺎﮞ ﮐﺎ ﺣــــﻖ:
ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺗﻢ ﭘﺮیہ ﺣﻖ ﮨﮯ کہ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭاس نے ﺗﻤﮩﯿﮟ اپنے دل کے ثمرسے کھلایا جبکہ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ کو اپنا دل کھانے کے لیے پیش نہیں کرتا، ﺍﻭﺭ اس نے مکمل خوشی کے ساتھ اپنے کانوں، آنکھوں، ہاتھوں، قدموں، بالوں، جلد اورﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﻭ ﺟﻮﺍﺭﺡ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ، اور اس عمل میں پیش آنے والی کراہت، تکلیف، وزن و دشواری اور غم و الم کو برداشت کیا یہاں تک کہ قدرت کے ہاتھ نے اسے تم سے جدا کیا اور تمہیں زمین پہ بھیج دیا، پھر یہی ماں برضا و خوشی ﺧﻮﺩ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻼﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، ﺧﻮﺩ ﭘﯿﺎﺳﯽ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﻼﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، ﺧﻮﺩﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺎﯾﮧ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ، اپنی غربت و ضرورت مندی میں بھی تمہیں نعمتیں دیتی رہی، تمہیں سلا کر خود ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ جاگتی ﺭﮨﯽ، اس کا پیٹ تمہارے لیے برتن بن جاتا، اس کی گود تمہارے لیے آغوش بن جاتی،اس کے پستان تمہارے لیے مشکیزہ بن جاتے اور وہ خود تمہاری محافظ تھیﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺮﺩﯼ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، لہٰذا تم انہی امور کی مقدار کے برابر اس کا شکریہ ادا کرو اور خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر تم اس کی حقیقی قدر و منزلت کے مطابق اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
أمّا حقّ الأب فقد بيّنه الإمام زين العابدين(عليه السلام) بقوله: (وأمّا حقّ أبيك فتعلم أنّه أصلُك، وأنّك فرعُه، وأنّك لولاه لم تكن، فمهما رأيت في نفسك مايعجبك فاعلم أنّ أباك أصلُ النعمة عليك فيه، واحمد الله واشكره على قدر ذلك..).
باپ کا حق:
تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہے اور تم اس کی شاخ وفرع ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں پسند آئے تو اس وقت تم یہ خیال کروکہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکر وثنا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
وأمّا حقّ الولد فقد أوضحه (سلام الله عليه) بقوله: (وأمّا حقّ ولدك فتعلم أنّه منك، ومضافٌ إليك، في عاجل الدنيا بخيره وشرّه، وأنّك مسؤولٌ عمّا وليته من حسن الأدب، والدلالة على ربّه، والمعونة له على طاعته فيك وفي نفسه، فمثاب على ذلك ومعاقبٌ على الإساءة اليه).
اولاد کا حق:
اور تم پر تمہاری اولاد کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ وہ تم سے ہے اور اس دنیا کی نیکی اور بدی میں تم سے پیوستہ ہےاور تم خدا کے حکم کے مطابق، اس پر اپنی ولایت کے پیش نظر، اس کی عمدہ پرورش کرنے، نیک آداب سکھانے اور خدائے عزوجل کی طرف راہنمائی کرنے اور خدا کی فرمانبرداری میں اس کی مدد کرنے میں اپنے حوالے سے بھی اور اس کے حوالے سے بھی، جوابدہ ہو؛ اور اس ذمہ داری کے عوض جزا اور سزا پاؤگے۔
جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا تھا :
(فإنّي رأيتك بعضي بل كلّي) بے شک میں تمہیں اپنی ذات کا جزء بلکہ کل ذات سمجھتا ہوں۔
أمّا حقّ الجار: (وأمّا حقّ الجار فحفظه غائبًا، وكرامته شاهدًا، ونصرته ومعونته في الحالين جميعًا، لا تتّبع له عورة، ولا تبحث له عن سوءة لتعرفها،فإن عرفتها منه عن غير إرادة منك ولا تكلّف، كنت لما علمت حصناً حصينًا، وستراً ستيرًا، لو بحثت الأسنّة ضميراً عنه لم تصل إليه لانطوائه عليه. ولا تسمّع عليه من حيث لا يعلم –أي لا تتجسّس-، ولا تسلمه عند شديدة، ولا تحسده عند نعمة، تقيل عثرته، وتغفر زلّته، ولا تدّخر حلمك عنه إذا جهل عليك، ولا تخرج أن تكون سلماً له، تردّ عنه لسان الشتيمة، وتبطل فيه كيد حامل النصيحة، وتعاشره معاشرةً كريمة، ولا حول ولا قوة إلّا بالله...).
ہمسایوں کا حق:
تيرے پڑوسي كا حق يہ ہے كہ اس كي عدم موجودگي ميں اس كے مال و ناموس كي حفاظت كرو،اور اس کی موجودگی میں اس کا احترام کرواور ان دونوں حالتوں میں اس کی مدد و تعاون کرو، اور اس میں برائیاں تلاش نہ کرو، اگر اس کی کوئی برائی غیر ارادی طور پر بغیر کسی تلاش کے تمہیں معلوم بھی ہو جائے تو جو تمہیں معلوم ہوا ہے تم اس کے لیے مضبوط ترین قلعہ اور پردہ بن جاؤ اس کے جانے بغیر اس کی کوئی بات نہ سنو(یعنی تجسس اور جاسوسی نہ کرو)مشکل کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑو اس کے پاس موجود نعمت کی وجہ سے اس سے حسد نہ کرو اس کی لغزش سے درگزر کرو اور اس کی غلطی کو معاف کرو اگر وہ تمہارے بارے میں لاپراہ ہو جائے تو دل میں اسے ذلیل نہ سمجھو، سب و شتم کے ساتھ اس کی بات کا جواب نہ دو اور اس کے ساتھ اچھا رہن سہن رکھو۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: