(سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ) سورة بنی اسرائیل/ آیت نمبر ١
ترجمہ: پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
معراج کا واقعہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص انعام اور نبوت کا بہت بڑا معجزہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا مکمل سفر بیداری کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ کیا۔ البتہ بعض لوگ معراج کے واقعہ کو ایک خواب کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ معراج کے لیے صرف روح گئی تھی جسم نہ گیا تھا۔ یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے معراج کا واقعہ اگر خواب میں پیش آیا ہوتا تو نبی کی کیا خصوصیت، خواب میں تو عام آدمی بھی بہت کچھ دیکھ لیتا ہے معراج کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسم سمیت آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔ اور روح تو ایک غیر مادی جسم ہے جس کے لیے ایسا سفر اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا اگر یہ صرف خواب ہوتا یا صرف روح کو معراج ہوتی تو مشرکین اس کا مذاق نہ اڑاتے بھلا خواب کے واقعہ پر کوئی مذاق کیوں اڑاتا۔ یہ خواب نہ تھا بلکہ اللہ کے حکم سے حقیقت میں نبی اپنے جسم وروح کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔
معراج کے بارے میں یہ اختلاف بھی پایا جاتا ہےکہ یہ واقعہ کس سال پیش آیا۔
بہرحال معراج کا واقعہ مختصرًا کچھ یوں ہے کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ام ہانی کے گھر رات کے وقت آرام فرما رہے تھے کہ اللہ نے جبرائیل و میکائیل علیہماالسلام کو آپ کے پاس بھیجا وہ آپ کو مسجد حرام لے گئے پھر وہاں سے براق پر سوار کروا کر مسجد اقصی لے گئے۔
مسجد اقصی میں تمام انبیاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ پھر آپ کو ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔ جلیل القدر انبیاء سے ملاقات کروائی گئی، جنت و دوزخ دکھلائی گئی۔
معراج کے سفر کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت کرنے والے، فرض نمازوں کو چھوڑنے والے، زکوۃ ادا نہ کرنے والے ، بدکاری کرنے والے، ڈاکہ ڈالنے والے وغیرہ لوگوں کے بھیانک انجام دکھائے گئے۔مثلا فرض نماز چھوڑنے والوں کے سروں کو کچلا جا رہا تھا انکے سر ریزہ ریزہ ہوجاتے پھر ٹھیک ہوجاتے پھر مارا جاتا اسی طرح کچلنے کا عمل جاری رہتا۔
سدرۃ المنتہی جو ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے وہاں پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو ان کی اس اصل شکل میں دیکھا جس شکل میں اللہ نے انھیں بنایا تھا ان کے چھ سو پر ہیں ہر پر اتنا بڑا ہے کہ اس سے آسمان کا کنارہ چھپ جائے ان پروں سے رنگا رنگ موتی اور یاقوت اتنی زیادہ تعداد میں گر رہے تھے کہ جس کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے۔
سدرۃ المنتہی پہنچنے کے بعد جبرائیل نے کہا کہ میری پہنچ کا مقام یہاں ختم ہوگیا اب آپ آگے تشریف لے جائیں ۔ چنانچہ نبی کریم حضرت محمد(ص) اکیلے آگے تشریف لے گئے جہاں آپ نے خدا کی قدرت کے مزید عجائب کو دیکھا اور اللہ سے راز و نیازکی باتیں کی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ہم کلامی کے بعد آسمانوں سے واپس زمین پر تشریف لائے جب اپنے بستر پر پہنچے تو وہ اسی طرح گرم تھا جیسے چھوڑ کر گئے تھے یعنی معراج کا اتنا عجیب و طویل واقعہ اور سفر صرف ایک لمحہ میں پورا ہوگیا گویا اللہ نے اس دوران کائنات کے وقت کی رفتار کو روک دیا جس کے باعث یہ معجزہ نہایت تھوڑے وقت میں پورا ہوگیا۔