معجزة رَدُّالشَّمسِ (حضرت علی(ع) کے لیے سورج کا لوٹایا جانا)

بعض ظواہر اور تاریخی حوادثات عقل کی حدود اورانسان کی محدودسوچ سے باہر ہوتے ہیں حالانکہ وہ عقلی طور پر محال نہیں ہیں ،ان میں سے کچھ کا تعلق اہل بیت علیہم السلام کے فضائل کے ساتھ ہے جن کا اثبات تقاضا کرتا ہے کہ یہ امور ثابت شدہ نصوص اور صحیح اخبار سے ہیں ،جیسا کہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کو آنے والی نسلوں کی طرف نقل کیا جائے جس سے اطمینان حاصل ہوجائے یہ ان کے اثبات کے لئے صحیح اسلوب ہے البتہ اس قسم کے ظواہر کی عادی انسانی عقل کے ضمن میں اور انسانی محدود سوچ کے ضمن میں تفسیر کی جائے کیونکہ کبھی انسان قانع کنندہ نتیجہ تک نہیں پہنچتا اور اس میں عمل اور اس کی رد زیادہ ہوتی ہے !

ان تاریخی واقعات میں ایک ردالشمس (سورج کا لوٹایا جانا )ہے جو فریقین کی کتابوں میں ہے اور ہمارے لئے اخبار نقل کی گئی ہیں کہ ایسے واقعات جملہ انبیااور اولیاء کو حاصل ہوئے ہیں جیسے اللہ کے نبی ..........حضرت سلیمان،حضرت موسیٰ ،حضرت یوشع اور حضرت امام علی علیہم السلام۔

حضرت علی علیہ السلام کے لئے دومرتبہ سورج لوٹایا گیا ہے!

مستفیض اخبار میں ہے اور اسے علما سیروسلوک ،آثار نے روایت کیا ہے اور اس میں اشعار کو نظم کیا گیا ہے ................کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے لئے دومرتبہ سورج کو لوٹایا گیا ہے ایک دفعہ رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی میں اور دوسری دفعہ رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد سورج کو امیرالمؤمنین علیہ السلام لوٹایا گیا ہے ۔جیسے خود امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بیان کیا ہے اور فرمایا ہے:اللہ تعالیٰ نے میرے لئے سورج کو دومرتبہ واپس لوٹایا ہے اور امتِ محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم میں میرے سوا کسی کے لئے اسے لوٹایا نہیں گیا ہے۔(الخصال:٥٨٠١)

رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں سورج کا لوٹایا جانا!

اس واقعہ کو بہت زیادہ نصوص (روایات)میں نقل کیا گیا ہے لیکن اس کی منقولہ خصوصیات بہت زیادہ ہیںکیونکہ غالباً جب کسی معین واقعہ کے نقل میں طریق زیادہ ہوں !

خصوصاً جب وہ الفاظ نہ ہوں بلکہ تاریخی واقعہ ہوتو نقل معنی کے لئے عادی ہوتی ہے اور یہ نقل کرنے والے کے حساب سے مختلف ہوجاتا ہے اور اس واقعہ میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ بھی مختلف ہو جاتی ہیں۔

اور جو اس نقل کرنے والے سے چیزیں غائب ہوجاتی ہیں اس کی وجہ سے بھی واقعہ راویوں کی زبان کے حساب سے ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ روایات میں مذکورہ خصوصیات کے منافی نہیں ہوتا ہے ۔جو رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں سورج کے لوٹائے جانے والے واقعہ کے بارے میں نقل ہوئی ہیں بلکہ طریق کی کثرت اگرچہ اس کے مضامین مختلف ہیں.................اصل واقعہ کی تاکید کرتے ہیں اسے علم درایت میں تواتر اجمالی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ واقعہ کے حصول میںیقین کے طرق میں سے ہے۔

اس لئے ہم اس واقعہ کے نقل کرنے میں خبر واحد پر اقتصار کرتے ہیں اور وہ یہ ہے :

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز عصر پڑھی حضرت علی علیہ السلام آئے انہوں نے نماز عصر نہیں پڑھی تھی پس اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی طرف وحی کی ،آپۖنےاپناسرحضرتعلی علیہ السلام کی گود میں رکھا (یعنی وحی کی حالت پیدا ہوئی پس آپۖحضرتعلی علیہ السلام کی گود میں سر رکھ کے سو گئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کو حاصل کریں اور جب آپۖپروحی کا نزول ہوتا تو آپۖکوایک مخصوص حالت عارض ہوجاتی تھی جس میں آپۖعالمدنیا سے دور ہوجاتے تھے اب امیرالمؤمنین علیہ السلام حرکت بھی نہیں کرسکتے تھے تاکہ وحی اور رسالت پہنچنے کی حالت منقطع نہ ہو جائے اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اسی حالت میں اشارے سے نماز پڑھ لی اس سے بہت زیادہ روایت پر وارد اعتراضات دور ہوجاتے ہیں اس کے علاؤہ اعتراضا ت ہیں جو آئیں گے)پس رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی گود سے اٹھے توسورج غروب ہو چکا تھا وآپۖنےفرمایا:یاعلی!کیا تم نے نماز عصر پڑھی ہے ؟امام نے کہا :یارسول اللہ!نہیں .............رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:خدایا!علی تیری اطاعت میں تھا (گزشتہ تشریح سے اس عبارت کا معنی سمجھ آجاتا ہے )پس جب تک آپۖکاسراسکی گود میں تھا یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تھے۔اس حدیث کے گہرے معانی ہیںیہ متواضع عمل ان کا متحمل نہیں ہے)پس اے خدا! سورج کو واپس لوٹادے ،اس پر سورج واپس لوٹادیاگیا۔

(بحارالانوار:١٦٩٤١حدیث٤)اس جگہ پر مسجد بنائی گئی ہے جس کانام مسجد فضیخ ہے اور اس مسجد کا دوسرا نام مسجد ردالشمس ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے دنوں میں سورج کا لوٹایا جانا!

اس واقعہ کو متعدد جگہ پر نقل کیا گیا ہے لیکن ان کا مضمون ایک ہی ہے ،ہم خبر واحد کی نقل پر اکتفا کرتے ہیں اور یہ وہ ہے جسےِ جویریہ بن مسہر نے نقل کیا ہے:ہم امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ جنگ نہروان سے واپس آرہے تھے جب ارض بابل میں آئے تو نماز عصر کا وقت ہوگیا پس امیرالمؤمنین علیہ السلام اترے اور لوگ بھی اترے پس حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:اے لوگو!یہ ارض ملعونہ ہے یہ تین مرتبہ عذاب کا شکار بن چکی ہے ...............ایک روایت میں دودفعہ کاذکر ہوا ہے .............اب تیسری با ر عذاب کا شکار ہونے کی توقع ہے یہ الٹ پلٹ ہونے والی زمینوں میں سے ایک ہے جس میں شہر اپنے اہل کے ساتھ الٹ گیا (نہایہ :٥٦١)یہ پہلی زمین ہے جس میں بتوں کی پوجا کی گئی ہے ،نبی اور نبی کے وصی کے لئے اس زمین میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے تم میں سے جو یہاں نماز پڑھنا چاھے پڑھ لے پس لوگ راستے کی ایک جانب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور امام علیہ السلام رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خچر پر سوار ہوئے اور چل دیئے۔جویریہ کہتا ہے :میں نے کہا:بخدا قسم!میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پیچھے جاؤں گا اور آج کی نماز میں ان کی اقتدا کروں گاپس میں ان کے پیچھے چل دیا خدا کی قسم!ہم سورا کی پلِ سورا عبور نہیں کرپائے تھے (سورا :ارض بابل عراق کی جگہ ہے یہ وقف اور حلہ مزیدیہ کے قریب مقام ہے،،معجم البلدان :٢٧٨٣،،)یہاں کہ سورج غروب ہوگیا پس میں نے شک کیا ،مولا میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا:اے جویریہ کیا توشک کررہا ہے ؟میں نے کہا :ہاں یاامیرالمؤمنین!امام ایک جگہ اترے وضو کیا اور کھڑے ہوئے اور کچھ کلام کی جسےِ میں سمجھ نہ سکا گویا عبرانی زبان تھی پھر نماز کے لئے آواز دی میں نے دیکھا بخدا قسم!سورج دوپہاڑیوں کے درمیان سے نکلا اور بلند ہوا،امام نے نماز عصر پڑھی اور میں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی پس جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو رات ہوگئی جیسے پہلے تھی اب امام میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:اے جویریہ بن مسہر !اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

فسبح باسم ربک العظیم

(اپنے رب کے عظیم نام سے تسبیح کر)

(سورہ واقعہ آیت ٧٤)

میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے اسم عظیم کے واسطہ سے دعا کی ہے اور اس نے میرے لئے سورج کو واپس لوٹادیا ہے۔

روایت میں ہے:جب جویریہ نے اس معجزہ کو دیکھا تو کہا :

انت وصی نبی ورب الکعبة۔

(رب کعبہ کی قسم آپ نبیۖکےوصی ہیں)

(من لا یحضرہ الفقیہ:٢٠٣١حدیث ٦١١)

ہمیشہ شعرائے کرام نے ان دونوں واقعات کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ان میں سے سید حمیری ہے ۔اس نے اسے مشہور قصیدہ میں بیان کیا ہے اور کہا ہے :

ردت علیہ الشمس لما فاتہ وقت الصلاة وقددنت للمغرب

حتی تبلج نورہا فی وقتہا للعصر ثم ہوت ہوی الکواکب

وعلیہ قد ردت ببابل مرة اخری وماردت لخلق معرب

الا لیوشع اولہ من بعدہ ولردہاتاویل امر معجب

(حضرت علی علیہ السلام کے لئے سورج کو واپس لوٹایا گیا ہے اس لئے کہ انہوں نے نماز عصر نہ پڑھی اور مغرب کا وقت قریب ہو گیا سورج اتنا واپس آیا کہ اس کی روشنی عصر والے وقت والی تھی اور جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہوگیا اور ستارے نظر آنے لگ گئے اور دوسری مرتبہ امام کے لئے ارض بابل میں سورج واپس لوٹایا گیایہ اختصاص صرف حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے کسی دوسرے عرب کے لئے نہیں ہے ہا ں حضرت یوشع بن نون کے لئے بھی سورج واپس لوٹایا گیا ہے یہ عجیب امر ہے اس پر کئے گئے اعتراضات کا جواب اور تاویل کی گئی ہے)

حدیث ردالشمس کی نقل کی وسعت اور شہرت!

اس حدیث کی شہرت اتنی زیادہ ہے جو کائنات کو پُر کئے ہوئے ہے اسے متعدد صحابہ نے روایت کیا ہے جو درج ذیل ہیں:

١۔عبداللہ بن عباس ٢۔انس بن مالک ٣۔ابورافع ٤۔ابو سعید خدری ٥۔جابر بن عبداللہ انصاری ٦۔ابوہریرہ ٧۔ام سلمہ ٨۔اسمابنت عمیس۔

اہل سنت کے بہت زیادہ محدثین اور علما نے حدیث ردالشمس کو بیان کیا ہے اور انہوں نے اس کے طرق اور اسناد کو صحیح قراردیا ہے وہ یہ ہیں:

١۔فخرالدین رازی ٢۔رافعی ٣۔دیاربکری ٤۔حافظ ابو بشر دولانی ٥۔حافظ ابو القاسم طبرانی ٦۔حاکم نیشاپوری ٧۔ابن مردویہ اصفہانی ٨۔بہیقی ٩۔خطیب بغدادی ١٠۔ابن مندہ ١١۔قاضی عیاض وغیرہ۔

جنہوں نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے :

١۔ابو جعفر احمد بن صالح طبری مصری ٢۔طحاوی ٣۔ابن حجر عسقلانی ٤۔سیوطی ٥۔ابن حجر ہیثمی۔

سب سے زیادہ بحث کرنے والے مصنفین نے اس واقعہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں :

١۔ابوبکر الوراق ٢۔فضیلی ٣۔حسکانی ٤۔سیوطی

٥۔ابن مردویہ اور ان کے علاؤہ بہت زیادہ ہیں۔

واقعہ ردالشمس پر اعتراضات اور ان کے جوابات :

حضرت علی علیہ السلام کے دشمنان اس علوی فضیلت کے نور کو گل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیںاس لئے انہوں نے اس واقعہ پر بہت زیادہ اعتراضات کئے ہیں لیکن علمائے کرام نے انہیں اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ ان کے اعتراضوں کا جواب دیا ہے ۔

پہلا اعتراض:وہ اخبار جن میں اس واقعہ کو نقل کیا گیا ہے ...........سب ضعیف السند ہیں؟

جواب: اہل سنت کے بہت زیادہ علما اورمحدثین نے اس حدیث کے طرق کو صحیح قراردیا ہے یہاں تک کہ اگر اس حدیث کے سارے طریق ضعیف ہوں توبھی مؤثر نہیں ہے اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مستفیض ہے جس میں اصل واقعہ کے ہونے کااطمینان حاصل ہونا کافی ہے۔

دوسرااعتراض:یہ حدیث دوسری حدیث کے ساتھ معارض ہے اور وہ یہ ہے :سوائے یوشع کے کسی کے لئے سورج کو مقید نہیں کیا گیا ہے ۔

جواب:یہ حدیث فائدہ دیتی ہے کہ یہ واقعہ سابقہ امتوں میں سوائے یوشع کے کسی کے لئے حاصل نہیں ہواہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ایسا واقعہ مستقبل میں واقع نہیں ہواہے۔

تیسرااعتراض:اس واقعہ پر ایمان رکھنے سے لازم آتاہے کہ کائنات کے نظام میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس کاقبول کرنا ممکن نہیں ہے ؟

جواب:ہم نے ابتدا میں تحریر کیا ہے کہ واقعہ کبھی عادی عقلی تحلیلات سے اوپر ہوتاہے جو عقل کے سمجھنے سے باہر ہوتاہے اس لئے ان حوادث کے ثابت کرنے میں کافی ہوتا ہے کہ یہ شے محال نہیں ہے اور یہ نصوص ثابتہ کے ساتھ معارض نہیں ہے اور جس شے میں کوئی شک نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کا واقع ہونا محال عقلی نہیں ہے یہاں تک کہ اسے قدرت الہیہ کے دائرہ سے خارج شمار کیا جائے ۔زیادہ سے زیادہیہ ہے کہ یہ غیر عادی امر ہے اور یہ اس پر ایمان لانے میں مانع نہیں ہے حالانکہ یہ کام حضرت یوشع علیہ السلام کے دور میں واقع ہواہے جیساکہ اس کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے ۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: