پندرہ شوال: رسول خدا(ص) کے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شھادت کا دن.....

پندرہ شوال تین ہجری کو مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک خون ریز جنگ ہوئی جسے تاریخ میں جنگ احد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسی جنگ کے بارے میں قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی : (وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ) آل عمران:166.

ترجمہ:اورجو کچھ بھی اسلام و کفر کے لشکر کے مقابلہ کے دن تم لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے وہ خدا کے علم میں ہے اور اسی لئے کہ وہ مومنین کو جاننا چاہتا تھا.

جنگ احد کی المناک یادوں میں سے ایک اس جنگ میں رسول اکرم(ص) کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب (ع) کی شھادت بھی ہے۔

حضرت حمزہ(ع) رسول خدا(ص) کے نزدیک بہت ہی بلند اور مقرب ترین منزلت رکھتے تھے روایات میں مذکور ہے کہ رسول خدا(ص) نے سب سے پہلا علَم حضرت حمزہ کو عطا کیا اور ان کی بہادری اور ایمانی بلندی کی بنا پہ انہیں اسلامی لشکر کا سب سے پہلا علمدار مقرر کیا۔

ابو جہل کی قیادت میں تین سو سواروں کے قافلہ کی نگرانی کرنے کے لیے رسول خدا (ص) نے حضرت حمزہ(ع) کو تیس سواروں کا سالار بنا کر بھیجا اور اس موقع پہ انہیں اسلام کا پہلا علم عطا کیا۔ حضرت حمزہ (ع) نے نبی کریم (ص) کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس قافلہ کی ہر طرح کی نقل و حرکت پہ نظر رکھی۔ اس واقعہ میں دونوں اطراف کے درمیان کوئی جنگی جھڑپ نہ ہوئی اور قافلہ کے گزر جانے کے بعد جناب حمزہ اپنے مختصر لشکر کے ہمراہ واپس مدینہ آ گئے۔

حضرت حمزہ(ع) نے غزوة بواط، ابواء اور بني قينقاع میں بھی علمداری کے فرائض سر انجام دئیے۔

غزوہ بدر میں جناب حمزہ نے بڑھ چڑھ کر اسلامی لشکر کی مدد کی اور اپنی بہادری اور اسلام سے پُر خلوص عقیدت کو سنہری الفاظ میں تاریخ کی پیشانی پہ ثبت کیا۔

غزوہ احد میں حضرت حمزہ کی شجاعت، بہادری اور اسلام کے دفاع کے لیے ادا کیے جانے والے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حضرت حمزہ(ع) نے جنگ بدر میں قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو جہنم واصل کیا تھا جس کی وجہ سے مشرکین مکہ نے جنگ احد میں انتقام کی آگ بجھانے کے لیے حضرت حمزہ (ع) کو اپنا اولین ہدف قرار دیا۔ حضرت حمزہ(ع) کے ہاتھوں جنگ بدر میں قتل ہونے والوں میں ہند بنت عتبہ کے قریب ترین عزیز و اقارب بھی شامل تھے۔ ہند نے اپنے جہنم واصل ہونے والے باپ اور بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے وحشی بن حرب کو انعام و اکرام کی لالچ دے کر حضرت حمزہ(ع) کے قتل پہ مامور کیا۔ ہند کی طرف سے وحشی نامی اس حبشی غلام کو اس کام پہ مامور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت حمزہ(ع) کے مقابلے میں جو بھی آتا وہ ہر صورت میں قتل ہوتا اور آمنے سامنے ہونے والے مقابلے میں کسی کے لیے بھی حضرت حمزہ(ع) پر غلبہ حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ جبکہ وحشی نامی حبشی غلام ایک چھوٹے نیزے کو دور سے ہدف کی طرف پھینکنے میں مہارت رکھتا تھا اور اس زمانے میں عربوں میں اس چھوٹے نیزے کا اس طرح سے استعمال معروف نہیں تھا لہٰذا جنگ احد کے دوران جب حضرت حمزہ(ع) مشرکین مکہ کو واصل جہنم کر رہے تھے اس وقت وحشی نے دور سے چھپ کر اپنے اس چھوٹے نیزہ کو حضرت حمزہ(ع) کی طرف پھینکا جو حضرت حمزہ(ع) کے پیٹ میں آ کر پیوست ہو گیا اور اسی کی وجہ سے جناب حمزہ(ع) نے جام شھادت نوش کیا۔ جناب حمزہ (ع) کی روح پرواز کرنے کے بعد ہند نے جناب حمزہ کا پیٹ چاک کر کے ان کا جگر نکال کر دانتوں سے چبانا چاہا لیکن بحکم خدا پتھر میں تبدیل ہو گیا۔

رسول خدا(ص) کو جب اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب(ع) کی شہادت کی خبر ملی تو اللہ کے رسول(ص) بہت زیادہ غمزدہ ہوئے آپ(ص) نے مسلمانوں کو اپنے چچا کی میت پہ ماتم کرنے کا حکم دیا اور خود بھی ان الفاظ میں اپنے چچا پہ نوحہ پڑھا: (لن أُصاب بمثلك، ما وقفتُ موقفاً قَطّ أَغْيَظُ عَليَّ من هذا الموقف) (يا عمَّ رسولِ الله، وأسدَ الله، وأسدَ رسولِ الله، يا حمزةُ يا فاعل الخيراتِ، يا حمزةُ يا كاشف الكُرُبَاتِ، يا حمزةُ يا ذابّاً يا مَانِعاً عن وجه رسول الله..)
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: