امام رضا(ع) کی زبانی اہل بیت کی امامت پہ دلالت کرنے والی ہزار وں دلیلوں کی ترجمانی کرنے والی ایک دلیل.....

ضریح مبارک امام رضا علیہ السلام
مامون رشید اکثر مختلف مذاہب اور فرقوں کے علماء کو بلا کر ان کا آپس میں فقه، حديث، فلسفہ وغيره میں مناظرہ اور مناقشہ کرواتا تھا ایک دفعہ اس نے امام رضا(ع) کی موجودگی میں علماء کی ایک بڑی تعداد کو بلایا اور ان سے یہ سوال کیا:

وہ منتخب کردہ برگزیدہ ہستیاں کون ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے:

« ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا» سورہ فاطر آیت نمبر32

یعنی: پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انھیں بنایا ہےجنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ و منتخب کیا ہے۔

امام رضا(ع) کے علاوہ وہاں موجود تمام علماء نے کہا: اس آیت میں برگزیدہ و منتخب کردہ افراد سے مراد حضرت محمد(ص) کی پوری امت ہے۔

مامون نے علماء کی بات سن کر امام رضا(ع) سے مخاطب ہو کر کہا: اے ابوالحسن آپ کیا کہتے ہیں؟

امام رضا(ع) نے فرمایا: اس سے مراد صرف رسول اکرم(ص) کی عترت طاہرہ ہے، ان کے علاوہ کوئی بھی اس آیت سے مراد ومقصود نہیں ہے۔

مامون نے کہا: اس پہ کیا دلیل ہے؟

امام رضا(ع) نے فرمایا: اگر اللہ کی اس سے مراد تمام مسلمان ہیں جیسا کہ ان علماء کا کہنا ہے تو تمام مسلمانوں پہ جہنم کی آگ حرام ہے چاہے وہ جو بھی کرتے بھریں، کیونکہ اللہ تعالی اپنے منتخب کردہ برگزیدہ افراد میں سے کسی کو بھی عذاب نہیں دیتا، جبکہ دینی حوالے سے بدیہی طور پر اس کا الٹ ثابت ہے (یعنی تمام مسلمانوں پہ جہنم کی آگ حرام نہیں ہے)، جو بھی ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کی جزاء پائے گا اور جو بھی ذرہ برابر برائی کرے گا اسے بھی اس کی سزا ملے گی.....

جس طرح سے احادیث نبویہ اللہ کی کتاب کی تفسیر کرتی ہیں اسی طرح سے قرآن کی آیات بھی ایک دوسرے کی تفسیر و تشریح کو بیان کرتی ہیں، قرآن اور احادیث نبویہ میں بہت سے ایسے شواہد اور دلائل موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ «ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا» میں مذکور برگزیدہ و منتخب شدہ افراد سے مراد عترت طاہرہ(ع) ہے ان دلائل و شواہد میں سے چند یہ ہیں:

1:۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» سورۃ احزاب آیت نمبر33

یعنی: اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

یہ آیت واضح الفاظ میں بتا رہی ہے کہ اہل بیت ہر طرح کے رجس سے پاک ہیں اور سادہ و بدیہی سی بات ہے کہ اللہ کے منتخب کردہ برگزیدہ افراد ہی پاک و طاہر ہوتے ہیں۔ لہذا اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ صرف اہل بیت ہی اللہ کے منتخب کردہ برگزیدہ افراد ہیں۔

2:۔ رسول خدا(ص) کا فرمان ہے: «اني مخلف فيكم الثقلين : كتاب اللّه، وعترتي أهل بيتي ألا وانهما لن يفترقا، حتى يردا علي الحوض»

یعنی: میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چيزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جو اللہ کی کتاب اور میری عترت اہل بیت ہے آگاہ ہو جاؤ یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ یہ حوض کوثر پہ میرے پاس اکٹھے آئيں گے۔

اللہ کی کتاب عترت سے لمحہ بھر کے لیے بھی کبھی جدا نہیں ہو گی جس کا مطلب یہ ہے کہ عترت کو ہی اللہ کی کتاب کا وراث بنایا گیا ہے اور عترت کو ہی اللہ نے اپنے قرب اور انتخاب کے لیے خاص قرار دیا ہے۔

3:۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: «فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ»سورۃ آل عمران آیت نمبر61

یعنی: آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

اللہ تعالی نے اس آیت میں جن افراد کو مباہلہ کے لیے منتخب کیا انہی افراد کو اللہ نے «ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا» میں برگزیدہ اور منتخب شدہ قرار دیا۔

آیت مباہلہ میں "أَنفُسَنَا" سے مراد حضرت علی(ع) ہیں، "أَبْنَاءنَا" سے مراد امام حسن(ع) اور امام حسين(ع) ہیں، اور "نِسَاءنَا" سے مراد حضرت فاطمہ(ع) ہیں۔

یہ وہ خصوصیت ہے جو اِن سے پہلے کسی کو نہیں ملی، یہ ایسی فضیلت ہے جو پنجتن پاک سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہوئی، یہ ایسا شرف ہے جس سے پنجتن پاک کے علاوہ کسی بشر کو نوازا نہیں گيا۔

4:۔ نبی کریم(ص) نے صحابہ کرام کے گھروں کے مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیے لیکن حضرت علی(ع) کے گھر کا مسجد میں کھلنے والا دروازہ بند نہ کروایا اور اسے اپنی حالت میں باقی رہنے دیا۔

حضرت علی(ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دینے کی وجہ سے بہت سے صحابہ نے منہ بھی پھلایا، الٹی سیدھی باتیں بھی کیں اور رسول اکرم(ص) سے احتجاج بھی کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول(ص) آپ نے علی(ع) کو تو باقی رکھا ہے اور ہم کو نکال دیا ہے۔

تو نبی کریم(ص) نے ان صحابہ سے فرمایا: میں نے نہ تو خود علی(ع) کو باقی رکھا ہے اور نہ ہی میں نے خود تم کو نکالا ہے بلکہ اللہ نے علی(ع) نے باقی رکھا ہے اور تم کو نکالا ہے۔

جس طرح سے اللہ نے مسجد میں صرف حضرت علی(ع) کو باقی رکھا اور دوسرے تمام لوگوں کو نکال دیا اسی طرح سے خود اللہ نے ہی آیت کریمہ«ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا» میں عترت طاہرہ کو باقی رکھا اور باقی تمام نکال دیا۔

5:۔ ارشاد قدرت ہے: «وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ» سورۃ اسراء آیت26

یعنی: اور قریبی ترین قرابت دار کو اس کا حق دو۔

اللہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے اہل بیت کا خاص حق ہے اور اس میں ان کے علاوہ کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ اللہ نے اہل بیت کو پوری امت میں سے برگزیدہ اور منتخب شدہ قرار دیا ہے۔

6:۔ اللہ تعالی نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث بارسالت کیا ان سب پہ وحی نازل کی کہ وہ اپنی قوم سے رسالت کا کوئی اجر طلب نہ کریں لیکن حضرت محمد(ص) کو حکم دیا کہ آپ(ص) اپنی امت سے تبلیغ رسالت کے اجر کے طور پر اپنے قرابت داروں کی محبت و مودَّت کا مطالبہ کریں کیونکہ اللہ تعالی اہل بیت کی اطاعت اور افضلیت سے باخوبی آگاہ ہے۔

قرآن میں مذکور ہے کہ حضرت نوح(ع) نے فرمایا: «وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالاً إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ» سورۃ ہود آيت29

اے میری قوم! میں اس کام (تبلیغ رسالت)کے بدلے تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے۔

حضرت ہود(ع) نے اپنی قوم سے فرمایا: يَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي أَفَلاَ تَعْقِلُونَ سورۃ ہود آیت51

اے میری قوم! میں اس کام (تبلیغ رسالت)پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔

لیکن اللہ نے حضرت محمد(ص) کو حکم دیا: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى سورۃ شوری آیت20

کہہ دیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے محبت و مودّت کے علاوہ تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔

جس طرح سے آل رسول سے محبت کا واجب ہونا ایک ایسی منفرد فضیلت ہے جس کی مثال دوسرے انبیاء میں نہیں پائی جاتی اسی طرح سے کتابِ خدا کا وارث ہونا اور اللہ کی طرف سے برگزیدہ اور منتخب کردہ ہونا بھی ایک ایسی منفرد فضیلت ہے جو آل محمد کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔

7:۔ اللہ نے قرآن مجید میں اپنے مختلف انبیاء پہ سلام بھیجتے ہوئے فرمایا:

سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ سورۃ صافات آیت79

یعنی: تمام عالمین میں نوح پر سلام ہو۔

سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ سورۃ صافات آیت109

یعنی: ابراہیم پر سلام ہو۔

سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ سورۃ صافات آیت120

یعنی: موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو۔

انبیاء پہ سلام بھیجتے ہوئے اللہ نے یہ نہیں کہا: سلام على آل نوح، سلام على آل إبراهيم، سلام على آل موسى... کسی نبی کی آل پہ اللہ نے سلام نہیں بھیجا۔

لیکن اللہ نے ہی قرآن میں فرمایا ہے: سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ سورۃ صافات آیت130

یعنی: آل یاسین پر سلام ہو۔

تمام مفسرین کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ "یس" سے مراد حضرت محمد(ص) ہیں اور اس آیت میں آل محمد پہ سلام بھیجا گیا ہے۔

پس جس طرح سے اللہ نے صرف آل محمد کو اپنے سلام کے ساتھ خاص قرار دیا ہے اسی طرح سے اللہ نے آل محمد کو کتاب کا وارث اور برگزیدہ ہونے میں بھی سب سے منفرد مقام عطا کیا۔

روایات میں مذکور ہے کہ مسلمانوں نے حضرت محمد(ص) سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ہم آپ(ص) پہ کیسے درود بھیجیں؟ تو رسول اکرم(ص) نے فرمایا: تم درود پڑھنے کے لیے یہ کہو: اللهم صلِّ على محمد وآل محمد۔

8:۔ ارشاد قدرت ہے: وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى سورۃ انفال آیت41

اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور رسول کے قریب ترین رشتے داروں ..... کے لیے ہے۔

اللہ تعالی نے آل محمد کو ایک خاص دائرے میں رکھا ہے اور باقی سب لوگوں کو ایک الگ دوسرے دائرے میں قرار دیا ہے اور آل محمد کو اسی چیز سے نوازا ہے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اور انھیں پوری مخلوق سے برگزیدہ قرار دیا ہے۔

مذکورہ آیت میں اللہ نے ہر غنیمت کی ملکیت کے حوالے سے اپنی ذات سے ابتدا کی، پھر اپنے رسول کا ذکر کیا اور پھر رسول کے قرابت داروں کا ذکر کیا اب جہاں کہیں بھی مال غنیمت ہو گا آل رسول کے پاس آ‎ئے گا اور یہ ایسی فضیلت ہے جو صرف آل رسول کے ساتھ خاص ہے باقی امت کے لیے نہیں ہے۔

9:۔ ارشاد قدرت ہے: فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ سورۃ نحل آیت43

اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

اہل بیت ہی اہل ذکر ہیں کیونکہ حدیث ثقلین کے مطابق عترت اہل بیت قرآن کے مساوی اور ہم پلہ ہیں۔

اللہ کا فرمان ہے: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَّحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى سورۃ طه آیت132

یعنی: اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ نے اپنے فرمان "أَقِيمُوا الصَّلَاةَ" میں ہمیں لوگوں کے ساتھ نماز کے قیام کا حکم دیا ہے اور اِس آیت کریمہ کے ذریعے ہمیں انفرادی حیثیت عطا کی ہے۔ اس آیت کے نزول کے بعد رسول خدا(ص) پنجگانہ نمازوں میں سے ہر نماز کا وقت ہوتے ہی حضرت علی(ع) اور حضرت فاطمہ(ع) کے دروازے پہ آ کر فرماتے: "الصلاة يرحمكم اللہ" جس طرح سے اللہ نے ہمیں اپنے لطف و کرم سے نوازا ہے اس طرح سے انبیاء میں سے کسی کی نسل کو نہیں نوازا۔

امام رضا علیہ السلام کی اس طویل گفتگو کے بعد وہاں موجود علماء اور مامون نے کہا: اللہ تعالی آپ اہل بیت کو آپ کے جد امجد کی امت کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے حق کو واضح کر دینے والی گفتگو صرف آپ کے پاس ہے۔

آیت کریمہ: «ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا» میں اللہ کی طرف سے کتاب کے وارث اور برگزیدہ قرار دیے گئے افراد سے مراد آل محمد ہیں اگر آپ اس سلسلہ میں امام رضا علیہ السلام کی بیان کردہ مضبوط ترین تمام دلیلوں کو پڑھنا چاہتے ہیں تو شیخ صدوق کی کتاب عيون الأخبار امام رضا(ع) کی طرف رجوع کریں، میں نے یہاں اختصار اور توضیح کو مدنظر رکھتے ہوئے امام کی بیان کردہ چند دلیلوں کا خلاصہ الفاظ کے معمولی ردّ وبدل اور اصل مفہوم کی مکمل محافظت کے ساتھ لکھا ہے آپ یہاں مذکورہ اور غیر مذکورہ تمام ادلّہ کو تفصیل کے ساتھ کتاب عیون الاخبار میں پڑھ سکتے ہیں۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: