یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی بھی دوسرا شخص دختر رسول(ص) کا کفو و ہمپلا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
مورخین نے لکھا ھے: جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا: اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے خواستگاری کیوں نہیں کرتے۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے: میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں۔ وہ لوگ کہتے تھے: پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے۔
آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے۔
مورخین لکھتے ھیں کہ: آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا: اے علی کیا کوئی کام ھے ؟
حضرت امیر(ع) نے جواب دیا: جی،
رسول اکرم(ص) نے فرمایا: شاید زھراء سے شادی کے خواستگار ہو؟
حضرت علی(ع) نے جواب دیا: جی۔
چونکہ مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لہذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا۔
پیغمبر(ص) نے اس نسبت کا تذکرہ اپنی صاحب زادی سے کرتے ہوئے فرمایا: آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟
حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔
پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر 400 مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا گیا۔
قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جہاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا: اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا۔ شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا مختصر سا جہیز تھا جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا اس میں صرف چودہ چیزیں تھی۔
رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔