جناب حبیب بن مظاہر(ع) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جلوسِ عزاء

تاریخ شاہد ہے کہ سانحہ کربلا کے وقت کے علماء، صحابہ، تابعین اور مفکرین سب اس بات پرمتفق تھے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام حق پر ہیں انھوں نے یزید کے اس غیر انسانی اقدام کی مذمت کی اور کسی نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقدام کو درست قرار دیا۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں۔”اگرچہ ان (حسین علیہ السلام ) کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک شخص کا بھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ آپ علیہ السلام کا خروج ناجائز تھا۔

جن صحابہ کرام نے انقلاب حسین علیہ السلام کی حمایت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں اور اپنی جان کی بازی لگا کر اس انقلاب کو پائیدار کرنے میں مدد کی ان میں ایک عظیم نام جناب حبیب بن مظاہر اسدی کا بھی ہے اہل کربلا کی یہ رسم عزاء چلی آ رہی ہے کہ وہ چھ محرم کی رات اور دن میں جناب حبیب بن مظاہر کی طرف سے امام حسین(ع) کی حمایت اور قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کے مصائب اور قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔

اسی حوالے سے چھ محرم کی رات اور دن میں جناب حبیب کو یاد کرتے ہوئے بہت سے ماتمی جلوسوں نے امام حسین(ع) اور حضرت عباس کے حرم میں حاضری دی اور جناب حبیب کی سیرت پہ عمل کرتے ہوئے تاحیات امام حسین(ع) کے مشن کو آگے بڑھانے اور اس کے لیے ہر قربانی دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔

واضح رہے کہ حبیب بن مظاہر اسدی، قبیلۂ بنو اسد، میں سے ہیں، کوفہ کے باشندے ہیں اور حضرت علی(ع) کے خاص صحابی ہیں۔ وہ ان کوفیوں میں سے ہیں جنہوں نے معاویہ کی موت کے بعد امام حسین(ع) کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی؛ لیکن جب انھوں نے کوفیوں کی بیعت شکنی کو دیکھا چھپکے سے کوفہ چھوڑ کر امام(ع) سے جاملے اور 75 سال کی عمر میں امام حسین(ع) کے ہمرکاب ہو کرجام شہادت نوش کیا۔

نام اور نسب: حبیب بن مُظاہر (یامُظَہَّر) بن رئاب ابن اشتر بن حجوان بن فقعس بن طریف بن عمرو بن قیس بن حارث بن ثعلبہ بن دودان بن اسد اسدی کندی فقعسی

فضائل: حبیب مرد عابد و پارسا تھے، تقوی اور حدود الہیہ کی رعایت کرتے تھے، حافظ قرآن تھے، اور ہر شب عبادت و مناجات میں مصروف ہوتے تھے اور امام حسین(ع) کے بقول ہر شب ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔ پاک و پاکیزہ اور سادہ زندگی گذارتے تھے، اس قدر دنیا سے بےرغبت تھے اور زہد کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل بنائے ہوئے تھے کہ جس قدر بھی انھیں مال و دولت اور امان ناموں کی پیشکش ہوئی، انھوں نے قبول نہ کیا اور کہا: "اگر ہم زندہ رہیں اور ہو امام حسین(ع) کی مظلومیت کی حالت میں قتل کردیں تو تو رسول خدا(ص) کے حضور ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا (اور ہمیں معاف نہ کیا جائے گا)۔

روایات میں مذکور ہے کہ حبیب مدینہ چھوڑ کر امیرالمؤمنین(ع) کے ساتھ کوفہ چلے گئے اور آپ(ع) کے ساتھ مل کر جہاد میں مصروف ہوگئے اور آپ(ع) کے اصحاب خاص کے زمرے میں قرار پائے اور آپ(ع) کے علوم کے حاملین میں شمار ہوئے۔حضرت علی(ع) نے انہیں علم منایا و بلایا عطا کیا تھا۔حبیب شرطۃ الخمیس کے رکن خاص تھے اور شرطۃ الخمیس خطرات کی صورت میں فوری رد عمل کے لئے تشکیل یافتہ مسلح دستے Task Force کا نام تھا جس میں امام علی(ع) کے مخلص اور مطیع ساتھی شامل تھے۔

واقعہ عاشوراء سے برسوں قبل میثم تمار کا بنو اسد کی مجلس سے گذر ہوا تو دونوں نے ایک دوسرے کو شہادت کی بشارت اور شہادت کی کیفیت کی خبر دی اور یہ اسی علم منایا کا نتیجہ تھا جو انھوں نے امیر المؤمنین(ع) سے سیکھا تھا اور وہ دونوں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر رکھتے تھے۔

معاویہ بن ابی سفیان کی موت (سنہ 60 ہجری) کے بعد حبیب اور کوفہ کہ بعض شیعہ اکابرین ـ منجملہ سلیمان بن صُرَد، مسیب بن نَجَبَه اور رفاعہ بن شداد بجلی نے بیعت یزید سے انکار کیا اور امام حسین(ع) کو خط لکھا اور آپ(ع) کو امویوں کے خلاف قیام کی دعوت دی اور مسلم بن عقیل کوفہ آئے تو ان افراد نے ان کی نصرت کی۔

حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ خفیہ طور پر لوگوں سے مسلم کے لئے بیعت لیتے تھے اور اس راہ میں ان دو نوں نے کوئی قصور روا نہيں رکھا۔

ابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انھوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ موقع پاکر جناب حبیب خفیہ طور پر کوفہسے نکل گئے۔ وہ دن کی روشنی میں ابن زياد کے جاسوسوں اور گماشتوں کی نظروں سے کہیں چھپ جاتے تھے اور راتوں کو سفر کرتے تھے حتی کہ امام حسین(ع) کی لشکر گاہ تک پہنچے۔ بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلامیں امام حسین(ع) کے قافلے سے جاملے۔

حبیب نے کربلا پہنچتے ہی امام(ع) کی نسبت اپنی وفاداری میدان عمل میں ثابت کردی۔ جب دیکھا کہ امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم اور آپ(ع) کے دشمنوں کی تعداد کثیر ہے تو امام(ع) سے عرض کیا: "قریب ہی قبیلۂ بنو اسد کا مسکن ہے آپ اجازت دیں تو میں جاکر آپ کی مدد کی دعوت دوں گا شاید خدا انہیں ہدایت دے۔ امام(ع) نے اجازت دی تو حبیب عجلت کے ساتھ اپنے قبیلے میں پہنچے اور ان کو موعظت و نصیحت کی لیکن عمر سعد نے ایک لشکر بھیج کر بنو اسد کو امام(ع) کی طرف آنے سے روک لیا۔

شب عاشورا ہلال بن نافع نے حبیب کو اصحاب کی وفاداری اور استواری کے سلسلے میں جناب زینب بنت علی(ع) کی فکرمندی سے آگاہ کیا تو حبیب اور ہلال مل کر اصحاب کی طرف گئے اور انہیں اکٹھا کرکے سب امام حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اعلان کیا کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک خاندان رسول(ص) کی حمایت و حفاظت کریں گے۔

عاشورا کے دن امام حسین(ع) نے اپنے قلیل لشکر کا میسرہ (بایاں بازو) حبیب بن مظاہر کے سپرد کیا اور میمنہ (دایاں بازو) زہیر بن قین کے حوالے کیا اور پرچم اور قلب (مرکز) کی قیادت حضرت عباس کو سونپ دی۔

جنگ کے آغاز پر ـ جب عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر سے ایک ایک فرد نکل کر مبارز طلب کرتا تھا، حبیب اور بریر ہمدانی میدان میں آئے لیکن امام حسین(ع) نے انہیں روکا۔

ابو ثمامہ نے امام حسین(ع) کو وقت نماز کی یادآوری کرائی تو امام(ع) نے فرمایا: ان (سپاہ یزید) سے کہو کہ جنگ روک لیں تاکہ ہم نماز ادا کریں۔ حصین بن نمیرنے کہا: تمہاری نماز قبول نہیں ہوتی۔ حبیب بن مظاہر نے جواب دیا: تم سمجھتے ہو کہ آل رسول(ص) کی نماز قبول نہیں ہوتی اور تمہاری نماز قبول ہوگی اے شراب خور! اور اس پر حملہ کیا اس حملہ کے نتیجہ میں حصین گھوڑے سے گر گیا اور اشقیاء نے لپک کر اسے حبیب کے فیصلہ کن حملے سے نجات دلائی۔

مسلم بن عوسجہ لڑکر زخمی، اپنے خون میں رنگے ہوئے تھے، زندگی کے آخری لمحات گذار رہے تھے اور زمین پر گرے ہوئے تھے۔ امام حسین(ع) حبیب کے ساتھ مسلم کے پاس پہنچے۔ امام حسین(ع) نے فرمایا: اے مسلم! خدا تمہاری مغفرت فرمائے اور آیت قرآنی "مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً (ترجمہ: ایمان والوں میں کچھ اشخاص ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اسے جو انہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا تھا تو ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا کر لیا اور ان میں سے کچھ انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے بات میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی)" کی تلاوت کی۔ حبیب قریب آئے اور کہا: "تمہارا قتل ہونا، مجھ پر بہت بھاری ہے لیکن میں تمہیں جنت کی خوشخبری دیتا ہوں؛ مسلم بن عوسجہ نے کمزور سی آواز میں کہا: "خداوند متعال تمہیں خیر کی بشارت دے"؛ حبیب نے کہا: "اگر میری شہادت قریب نہ ہوتی تو میرے لئے خوشی کی بات ہوتی کہ تم مجھے وصیت کرتے اور جو کچھ تمہارے لئے اہم ہے میں تمہارے لئے انجام دیتا اور دین اور قرابتداری کے حوالے سے تمہارا حق ادا کرتا؛ مسلم نے سیدالشہدا(ع) کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میں تمہیں امام حسین(ع) کے حق میں وصیت کرتا ہوں، خدا تم پر رحم کرے "جب تک تمہارے بدن میں جان ہے ان کا دفاع کرو اور ان کی نصرت سے ہاتھ میں کھینچو"، حبیب بن مظاہر نے کہا: میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور عمل کرکے تمہاری آنکھیں روشن کروں گا۔

روز عاشورا حملوں کے دوران حبیب بن مظاہر کا رجز کچھ یوں تھا:

أنا حبيب و أبي مُظَهَّر

فارس هيجاء وحرب تسعر

وأنتم أعد عدة و أكثر

ونحن أوفی منكم و أصبر

ونحن أعلی حجة وأظهر

حقاً وأتقی منكم و أعذر

ترجمہ: میں حبیب ہوں اور میرے والد مُظَہَّر ہیں، میدان کارزار کا شہسوار ہوں اور جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوں۔ تمہیں عددی برتری حاصل ہے، تمہیں عددی برتری حاصل ہے۔ ہم اظہر اور اعلی حجت ہیں، درحقیقت ہم تم سے زیادہ پرہیزگا اور زيادہ مقبول ہیں۔

حبیب بن مظاہر، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے شمشر زنی کررہے تھے۔ انھوں نے 62 اشقیاء کو ہلاک کرڈالا اور اسی اثناء میں بدیل بن مریم عقفانی نامی شقی نے ان پر حملہ کیا اور ان کی پیشانی کو تلوار کا نشانہ بنایا اور دوسرے تمیمی شخص نے نیزے سے حملہ کیا حتی کہ حبیب زین سے زمین پر آرہے، ان کی سفید داڑھی ان کے سر سے جاری خون سے خضاب ہوئی۔ بعد ازاں بدیل بن مریم نے ان کا سر تن سے جدا کردیا۔ بروایت دیگر، تمیمی شخص بدیل بن صریم نے حبیب پر تلوار کا وار کیا اور دوسرے تمیمی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ زمین پر آرہے اور جب اٹھنا چاہا تو حصین بن نمیر نے ان کے سر کو تلوار سے زخمی کیا اور ابن صریم نے گھوڑے سے اتر کر ان کا سر تن سے جدا کیا۔ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام حبیب کی بالین پر پہنچے اور فرمایا: عندالله احتسب نفسي وحماة اصحابي۔ یعنی: میں اپنی اور اپنے حامی اصحاب کی پاداش کی توقع خداوند متعال سے رکھتا ہوں۔ اور اس کے بعد مسلسل اس آیت کریمہ "إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ (ترجمہ: بلاشبہ ہم اللہ کے ہیں اور بلاشبہ ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے)؛ کی تلاوت کرتے رہے۔ بعض مقاتل میں ہے کہ امام حسین(ع) نے حبیب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "لله درك يا حبيب، لقد كنت فاضلا تختم القرآن في ليلة واحدة"۔، (ترجمہ: آفرین ہو تم پر اے حبیب! تم ایک فاضل انسان تھے اور ہر شب ایک ختم قرآن کرتے تھے)۔

حبیب بن مظاہر کا ایک کم سن فرزند قاسم تھا جس نے بالغ ہوکر اپنے والد کے قاتل بدل بن مریم کو ہلاک کردیا۔

حبیب بن مظاہر اسدی، قبیلۂ بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے اور قبیلے میں ہر د لعزیز اور محترم تھے چنانچہ انھوں نے حبیب کو قبر امام حسین(ع) سے 10 میٹر کے فاصلے پر الگ دفن کیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: