عاشوراء کے اصولوں نے عراقیوں کی مسلسل 14صدیاں تربیت کی اور اسکا ثمرہ عراق اور اسکے مقدسات کے دفاع کے فتوے پہ لبیک کی صورت میں برآمد ہوا(علامہ صافی)

سانحہ عاشوراء کے اثرات چودہ سو سالوں سے عراقی معاشرے پہ پڑ رہے ہیں اس سانحہ نے عراقی معاشرہ میں عقایدی، دینی، اجتماعی اور سیاسی حوالے سے تربیتی جڑیں بنا لی ہیں یہاں تک کہ قربانی و فداکاری سب عراقیوں کی زندگی کا جزو بن چکی ہے اور حیرت انگيز بات یہ ہے عراقی عیسائیوں اور صابئہ میں بھی واضح طور پر سانحہ عاشوراء کے آثار کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں بہت سے افراد اس عظیم انقلاب سے نفسیاتی طور پر متاثر ہوئے اور انھوں نے اس قربانی، فداکاری اور کسی بھی جگہ ہونے والے ظلم وستم کے خلاف مذاہمت کرنے کے معانی کو الہامی طور پر حاصل کیا۔

یہی وجہ ہے کہ جس طرح سے عراقیوں نے اعلی دینی قیادت کی طرف سے دفاع کے فتوے پہ لبیک کہا ہے اس کی مثال پوری تاریخ میں شاذ ونادر ہی ملتی ہے۔ عوام کا اس فتوے پہ لبیک کہنا صدیوں سے ان میں عاشوراء کے اصولوں پہ پروان چڑھتا رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار نجف اشرف میں موجود اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی(دام ظلہ) کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی نے 12محرّم 1438هـ کو نماز جمعہ کے دوسرے خطبے میں عسکری رضاکاروں کے بارے میں گفتگو کے دوران کیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: