امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کی ایک عیسائی راہب سے گفتگو.....

اسیران کربلا کو یزیدی سپاہی شام کی طرف لے جا رہے تھے کہ راستے میں رات ہوگئی، جس جگہ پڑاؤ کا فیصلہ کیا گیا وہاں قریب ہی عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ تھی اس عبادت گاہ میں ایک ضعیف العمر عیسائی راہب رہتا تھا جو بہت ہی پرہیزگار، متقی، عبادت گزار اور خدا ترس تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ قافلے والے اپنے پیغمبر کے نواسے اور اس کے اصحاب کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر لے کر یزید کے پاس جا رہے ہیں تو اس نے یزیدی فوج کے سردار سے کہا میں تمہیں دس ہزار دینار دوں گا بشرطیکہ تم آج کی رات کے لیے اپنے پیغمبر(ص) کے نواسے کا سر میرے حوالے کر دو گے۔ یزیدی فوج کا سربراہ ایک لالچی شخص تھا لہٰذا اس نے راہب کی شرائط مان لیں اور امام حسین (ع) کا سر اس راہب کے حوالے کردیا۔

راہب امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس لے کر اندر چلا گیا۔ راہب نے نیزے پر سے سر انور کو اتارا اور اس کو خوشبودار پانی سے دھویا اسے صاف کیا اور خوشبو لگائی، خوبصورت غلاف میں رکھا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ رات بھر امام حسین علیہ السلام کے چہرہ کی زیارت کرتا رہا۔

راہب نے سر اقدس کو مخاطب کر کے کہا: آپ(ع) کو خدا کی قسم میرے ساتھ بات کریں۔ راہب کی یہ بات سن کر سر اقدس نے گفتگو کرتے ہوئے راہب سے کہا: تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ راہب نے کہا آپ کون ہیں؟ سر اقدس سے آواز آئی: میں محمد مصطفی(ص) کا فرزند ہوں، میں علی مرتضیٰ(ع) کا بیٹا ہوں، میں فاطمہ زہراء(س) کا لخت جگر ہوں، میں کربلا میں قتل ہونے والا مقتول ہوں........

وہ راہب بیان کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے سراقدس سے نوری شعاعیں اٹھ کر عرش معلی تک جارہی تھیں، نور کا ہالہ سر اقدس کا طواف کر رہا ہے۔ جب میں نے یہ کیفیت دیکھی تو ساری رات امام حسین علیہ السلام کی شھادت پر آنسو بہاتا رہا۔

امام حسین علیہ السلام کے احترام اور توقیر کا اسے یہ صلہ ملا کہ صبح جب باہر نکلا رحمت خداوندی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اس نے کلمہ پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ایک طرف وہ شقی القلب یزید کے سپاہی تھے کہ جو بے ادبی کا ارتکاب کر کے دولت ایمان سے محروم ہوگئے اور دوسری طرف یہ راہب تھا کہ جس کا دامن امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کی عزت و تعظیم کرنے کے صدقے میں ایمان کی نعمت سے بھر دیا گیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: