امام حسین(ع) کے کٹے ہوئے سر اقدس کو دیکھ کر سفیرِ روم کا رد عمل........

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے کہ
جب امام حسین علیہ السلام کے سراقدس کوجب بھی دربارِیزید میں لایا جاتا تو یزید ملعون جشن کی محفل منعقد کرتا اور سرِ امام حسین علیہ السلام کو اپنے سامنے رکھتا تھا-

ایک دن بادشاہِ روم کا سفیر جو کہ اشرافِ روم میں سے تھا دربارِ یزید میں آیا اور یزید سے پوچھنے لگا کہ :اے عرب کے بادشاہ ! یہ سر کس کا ہے ؟؟

یزید نے جواب دیا کہ تجھے اس سر سے کیا کام ؟
اس نے کہا :جب میں بادشاہ کے پاس واپس جاؤں گا جو کچھ میں نے یہاں دیکھا ہے اس کے بارے میں وہ پوچھے گا ، اور یہ کتنا اچھا ہوگا کہ میں اس سر اور اس کے وارث کے بارے میں بیان کروں تاکہ وہ تمھاری خوشیوں میں شریک ہو۔
یزید نے جواب دیا کہ یہ سر حسین ابنِ علی علیہ السلام کا ہے-
رومی پوچھنے لگا کہ اس کی ماں کا کیا نام ہے؟
تو اس نے جواب دیا: فاطمہ بنتِ محمد(س) __
نصرانی نے کہا : واۓ ہو تم پر اور تمہارے دین پر! میرا دین تمہارے دین سے بہتر ہے کیونکہ میرا باپ حضرت داؤد کی نسل سے ہے- میرے اور ان کے درمیان بہت فاصلہ ہے- پھر بھی تمام نصرانی میری تعظیم کرتے ہیں اور میرے پاؤں کی خاک کو تبرک کے طور پر اٹھاتے ہیں، جبکہ حسین(ع) اور تمہارے پیغمبر کے درمیان صرف ایک ماں کا فاصلہ ہے- تمہارا یہ کیسا دین ہے؟؟
اس کے بعد یزید سے کہنے لگا کہ کیا تو نے گرجا حافر کی داستان سنی ہے؟
اس نے کہا بیان کرو کہ سنوں -

اس عیسائی نے کہا: عمان اور چین کے درمیان ایک سمندر ہے کہ جس کو عبور کرتے ہوۓ ایک سال لگتا ہے - اس سمندر کے درمیاں کوئی آبادی نہیں سواۓ ایک شہر کے - اور یہ شہر عیسائیوں کے قبضہ میں ہے - اس کا ہر بادشاہ عیسائی ہوتا ہے - اور اس شہر میں بہت سے گرجا گھر ہیں اور ان میں سب سے بڑا گرجا گھر حافر ہے اور اس کے محراب میں سونے کا ایک برتن ہے جس میں ایک سم ہے اور مشھور ہے کہ یہ اس سواری کا سم ہے جس پر حضرت عیسیٰ سوار ہوتے تھے - اور اس برتن کو ریشمی کپڑے کے ساتھ لپیٹا گیا ہے - ہر سال عیسائی کثیر تعداد میں دور دراز سے اس گرجا گھر کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور اس برتن کے گرد طواف کرتے ہیں - اس کا بوسہ لیتے ہیں - اس جگہ پر خدا سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں - یہی ان کا عقیدہ ہے اور یہی ان کا عمل ہے - اس سم کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ اس سواری کا سم ہے جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سوار ہوتے تھے اور تم نے اپنے پیغمبر کے بیٹے کو قتل کر دیا - یزید نے حکم دیا: اس عیسائی کو قتل کر دو اور اس نے مجھے میری مملکت میں رسوا کیا ہے -
عیسائی جب اپنے قتل ہونے سے باخبر ہوا تو اس نے یزید سے کہا کہ کیا تو مجھے قتل کر دے گا ؟
یزید نے کہا ... ہاں !
تو عیسائی نے کہا :
تو جان لے کہ کل رات میں نے تیرے پیغمبر کو خواب میں دیکھا ، وہ مجھہ سے فرما رہے تھے کہ اے عیسائی ! تو اہل )بہشت میں سے ہے - میں ننے اس بشارت پر تعجب کیا ، اب میں کلمہ شہادتیں پڑھتا ہوں -
اشھد ان لا الہ الا الله و اشھد ان محمد رسول الله
اس کے بعد اس نے امام حسین علیہ السلام کے مقدس سر کو اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا اور اس کے بوسسے لیتا ہوا روتا رہا یہاں تک کہ اسکو قتل کر دیا گیا

(روضۃ الشھداء ، الصواعق المحرقہ ، مقتل لہوف)

یزید سمجھ رہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو قتل کر کے اس نے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے اب اس کے جبر کے سامنے کوئی دیوار بن کر کھڑا نہ ہوگا دین کی تحریف میں وہ آزاد ہوگا لیکن اس بدبخت کو یہ معلوم نہ تھا کہ یزیدیت جیت کر بھی ہار گئی ہے اور حسینیت بظاہر ہار کر بھی ہمیشہ کے لیے جیت گئی ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: