امام حسن مجتبی علیہ السلام کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کو معاویہ نے ایک لاکھ درھم اور یزید سے شادی کی لالچ دے کر امام حسن علیہ السلام کو زہر دینے پر آمادہ کیا اور شام سے انتہائی مہلک زہر اس کام کے لیے اس ملعونہ کے پاس بھیجا اور اس ملعون باپ کی ملعون بیٹی نے امام حسن علیہ السلام کو روزہ افطار کرنے کے لیے دودھ میں زہر ملا کر دیا جس کے پینے سے 7 صفر 50ہجری کو حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے 47 سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا اور بعض روایات کے مطابق امام حسن(ع) کی تاریخ شہادت 28صفر ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اشعث نے امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے، اس کی بیٹی جعدہ بنت اشعث نے امام حسن(ع) کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے اور اس کے بیٹے محمد بن اشعث نے امام حسین(ع) کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کیے۔
ہم آج کے دن کی مناسبت سے اپنے ناظرین و قارئین کی خدمت میں اپنے مظلوم و مسموم امام کی زندگی کے چند پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں:
والدین: حضرت امام حسن علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراء بنت رسول خدا سلام الله علیہا ہیں۔ آپ اپنے والدین کی پہلی اولاد ہیں۔
ولادت باسعادت: حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت باسعادت 15رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مشہور تاریخ دان جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ آپ کی صورت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے بہت ملتی تھی۔
پرورش: حضرت امام حسن علیہ السلام کی پرورش آپ کے والدین اور نانا رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ ہوئی اور آپ وحی کے نزول کے مرکز میں پروان چڑھے خدا کی عطا کردہ عظمت اور افضلیت کے نور سے ہمیشہ آپ کی سیرت منور رہی۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کا دورِ امامت: شیعہ مذہب کے عقیدہ کے مطابق ہر امام پیدائش سے ہی امام ہوتا ہے لیکن وہ اپنے سے پہلے والے امام کی وفات کے بعد ہی عہدہٴ امامت پر فائز ہوتا ہے لہٰذا حضرت امام حسن علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار حضرت امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد عہدہٴ امامت پر فائز ہوئے۔ جب آپ نے اس مقدس منصب پر فائز ہوئے تو چاروں طرف بدامنی پھیلی ہوئی تھی اور اس کی وجہ آپ کے والد کی اچانک شہادت تھی اور یہ تمام حالات معاویہ کی شیطانی سازشوں کا نتیجہ تھے۔ امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ غداری کی، انھوں نے مال ودولت، عیش و آرام اور عہدہ کے لالچ میں معاویہ سے سازباز کر لی۔ ایسی صورت میں امام حسن علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے ایک تو یہ کہ دشمن کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ شہید ہو جائیں یا دوسرے یہ کہ اپنے وفادار دوستوں اور فوج کو قتل ہونے سے بچا لیں اور دشمن سے جنگ بندی کر لیں۔ اس صورت میں امام نے اپنے حالات کا صحیح جائزہ لیا اور سرداروں کی بے وفائی اور فوجی طاقت کی کمی کی وجہ سے معاویہ سے جنگ بندی کرنا ہی بہتر سمجھا۔
صلح (جنگ بندی) کے شرائط:
(1)معاویہ کو اس شرط پر حکومت منتقل کی جاتی ہے کہ وہ الله کی کتاب، پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ(ص) کے حقیقی جانشینوں کی سیرت کے مطابق کام کرے گا۔ (2)معاویہ کے بعد حکومت امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہو گی اور امام حسن علیہ السلام کے اس دنیا میں موجود نہ ہونے کی حالت میں حکومت امام حسین علیہ السلام کو سونپی جائے گی۔ (3)نماز جمعہ کے خطبے میں امام علی علیہ السلام پر ہونے والا سب وشتم ختم کیا جائے اور آپ(ع) کو ہمیشہ اچھائی کے ساتھ یاد کیا جائے۔ (4)کوفہ کے بیت المال میں جو مال موجود ہے اس پر معاویہ کا کوئی حق نہ ہوگا، معاویہ ہر سال بیس لاکھ درہم امام حسن علیہ السلام کو بھیجے گا اور حکومت کی طرف سے ملنے والے مال میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر ترجیح دے گا، جنگ جمل وصفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے بچوں کے درمیان دس لاکھ درہم تقسیم کئے جائیں۔ (5)الله کی زمین پر رہنے والے تمام انسانوں کو امان ملنی چاہیے، چاہے وہ شام کے رہنے والے ہوں یا یمن کے، حجاز میں رہتے ہوں یا عراق میں، کالے ہوں یا گورے۔ معاویہ کو چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی سزا نہ دے، اہل عراق کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اختیار نہ کرے، حضرت علی علیہ السلام کے تمام ساتھیوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور پیغمبر اسلام کے خانوادے سے متعلق کسی بھی شخص کی کھلے عام یا پوشیدہ طور پر برائی نہ کی جائے۔
معاویہ نے حکومت کے حصول کے لیے ان شرائط کو قبول کر لیا لیکن حکومت کے ہاتھ میں آتے ہی وہ ان تمام شرائط پر عمل کرنے سے مکر گیا اور ساری عمر ان شرائط میں سے کسی ایک شرط پر بھی عمل نہ کیا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کے اس صلح نامہ نے معاویہ کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹ دیا اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرایا۔
شہادت: حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت 50 ہجری میں ماہ صفر کی 7تاریخ کو مدینہ میں ہوئی۔ معاویہ کی سازش کے تحت آپ کی جعدہ نامی زوجہ نے آپ کو زہر دیا تھا اور یہی زہر آپ کی شہادت کا سبب بنا۔
قبر مبارک: طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے وصیت کی تھی کہ مجھے میرے نانا کے پہلو میں دفن کرنا۔ ابوالفرج اصفہانی کی کتاب مقاتل الطالبین اور دیگر تاریخی کتابوں میں مذکور ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام کو دفن کرنے کے لئے پیغمبر اسلام(ص) کے روضہ کی طرف لے جایا گیا تو امام حسن(ع) کی رسول خدا(ع) کے پہلو میں تدفین کو روکنے کے لیے حضرت عائشہ خچر پر سوار ہو کر آ گئيں اور ساتھ ہی مروان بھی بنی امیہ اور دیگر نام نہاد مسلمانوں کے ہمراہ حضرت عائشہ کی مدد و حمایت کے لئے فورًا آ پہنچا اور پھر حضرت عائشہ اور مروان کی قیادت میں امام حسن(ع) کے جنازے پہ تیروں کی بارش کی گئی جس سے دسیوں تیر امام حسن(ع) کے جنازے میں پیوست ہو گئے۔
اس صورت حال کی وجہ سے مجبور ہو کر امام حسن علیہ السلام کے جنازہ کو جنت البقیع میں حضرت فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔