10رمضان: حضرت خدیجہ(س) کی وفات کا دن

روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے تمام خدام اور الکفیل انٹرنیشنل نیٹ ورک کے تمام ارکان ام المومنین حضرت خدیجہ(س) کی وفات پہ پوری امت مسلمہ کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔

اس موقع پہ حضرت خدیجہ (س) کے حالات زندگی کے حوالے سے ایک مفید مضمون قارئین کے پیش خدمت ہے:
حضرت خديجہ کا شمار تاريخ انسانيت کي ان عظيم خواتين ميں ہوتاہے جنہوں نے انسانيت کي بقاء اور انسانوں کي فلاح و بہبود کے لئے اپنی زندگی قربان کر دی۔
تاريخ بشريت گواہ ہے کہ جب سے اس زمين پر آثار حيات مرتب ہونا شروع ہوئے اور وجود اپني حيات کے مراحل سے گزرتا ہوا انسان کي صورت ميں ظہور پذير ہوا اور ابوالبشر حضرت آدم عليہ السلام اولين نمونہ انسانيت اور خلافت الہيہ کے عہدہ دار بن کر روئے زمين پر وارد ہوئے اور پہر آپکے بعد سے ہر مصلح بشريت جس نے انسانيت کے عروج اور انسانوں کي فلاح و بہبود کيلئے اس کو اس کے خالق حقيقي سے متعارف کرانے کي کوشش کي،کسي نہ کسي صورت ميں اپنے دور کے خود پرست افراد کي سر کشي اور انانيت کا سامنا کرتے ہوئے مصائب وآلام سے دوچار ہوتا رہا دوسري طرف تاريخ کے صفحات پران مصلحين بشريت کے کچہ ہمدردوں اور جانثاروں کے نام بہي نظر آتے ہيں جو ہر قدم پر انسانيت کے سينہ سپر ہوگئے اور در حقيقت ان سرکش افراد کے مقابلے ميں ان ہمدرد اورمخلص افراد کي جانفشانيوں ہي کے نتيجے ميں آج بشريت کا وجود برقرار ہے ورنہ ايک مصلح قوم يا ايک نبي يا ايک رسول کس طرح اتني بڑي جمعيت کا مقابلہ کرسکتا تہا جوہر آن اسکے در پئے آزارہويہي مٹہي بہر دوست اور فداکار تھے جنکے وجود سے مصلحين کے حوصلے پست نہيں ہونے پاتے تھےـ

مرور ايام کے ساتہ پرچم اسلام آدم (ع)و نوح (ع)و عيسيٰ وابراہيم عليہم السلام کے ہاتہوں سربلندي وعروج حاصل کرتا ہوا ہمارے رسول کے دست مبارک تک پہنچااورعرب کے ريگزار ميں آفتاب رسالت نے طلوع ہوکر ہر ذرہ کو رشک قمر بنا ديا،ہرطرف توحيد کے شاديانے بجنے لگے از زمين تا آسمان لا الہ الا الله کي صدائيں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگيں ،محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محيط ہوگيا اور تبليغ الٰہي کا آخري ذريعہ اور ہدايت بشري کے لئے آخري رسول رحمت بن کر عرب کے خشک صحرا پر چہاتا ہوا سارے عالم پر محيط ہوگيا دوسري طرف باطل کا پرچم شيطان ونمرود ،فرعون وشداد کے ہاتہوں سے گذرتا ہوا ابولہب ،ابو جہل اور ابوسفيان کے ناپاک ہاتہوں بلند ہونے کي ناپاک کاوشوں ميں مصروف ہوگيا ـرسول کے کلمہ توحيد کے جواب ميں ايذا رساني شروع ہوگئي اور حق وباطل کي طرح برسر پيکار ہوگئے ايسے عالم ميں کہ ايک طرف مکہ کے خاص وعام تھے اور دوسري طرف بظاہر ايک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ہو چکے تھے ـ ليکن پيغام الٰہي کي عظمت، مصائب کي کثرت پر غالب تھی اور ہر اذيت کے جواب ميں رسول الله کا جوش تبليغ اور زيادہ ہوتا جاتاتھا ـ

ايسے کسمپر سي کے عالم ميں جہاں ايک طرف آپکے چچا ابوطالب نے آپ کي ہر ممکنہ مدد کي وہيں دوسري طرف آپ کي پاک دامن زوجہ حضرت خديجہ نے آپ کي دلجوئي اور مدارات کے ذريعہ آپکو کفار مکہ سے پہچنے والي تمام تکاليف کو يکسرہ فراموش کرنے پرمجبورکرديا ـ حضرت خديجہ نے آپ کي زبان سے خبر بعثت سنتے ہي اٰمنا وصدقنا کہہ کر آپ کي رسالت کي پہلے ہي مرحلے ميں تائيد کردي ـجناب خديجہ کا يہ اقدام رسول اکرم کيلئے بہت حوصلہ افزاء ثابت ہوا ـآپکي اسي تائيد وتعاون کو رسول اکرم آپ کي وفات کے بعد بہي ياد فرماتے رہتے تھے اور اکثر وبيشتر آپ کي زبان اقدس پر حضرت خديجہ کا تذکرہ رہتا تہا (1)
حضرت عائشہ نے جب آپ کے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ خديجہ ايک ضعيفہ کے سوا کچھ نہيں تھی اور خدا نے آپ کو اس سے بہتر عطا کردي ہے (عائشہ کا اشارہ اپني طرف تہا )تو حضور ناراض ہو گئے (2 )ـ
اور غضب کے عالم ميں فرمايا کہ خدا کي قسم خدا نے مجھ کو اس سے بہتر عطا نہيں کي وللٰہ لقد اٰمنت بي اذکفر الناس واٰوتيني اذرفضني الناس و صدقتني اذکذبني الناس (3) خدا کي قسم وہ (خديجہ )اس وقت مجھ پر ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ہو ئے تھے اس نے مجہے اس وقت پنا ہ دي جب لوگوں نے مجہے ترک کرديا تہا اور اس نے ميري اس وقت تصديق و تائيد کي جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے
خاندان و نام ونسب
شجر اسلام کي ابتدائي مراحل ميں آبياري کرنے والي اور وسطي مراحل ميں اس کي شاخوں کو نمو بخشنے والي يہ خاتون قريش کے اصيل و شريف گہرانے ميں پيد ا ہوئي ـروايات ميں آپ کي ولادت عام الفيل سے پندرہ سال قبل ذکر ہوئي اور بعض لوگوں نے اس سے کم بيان کيا ہے ـآپ کے والد خويلد ابن اسد بن عبد العزي بن قصي کا شمار عرب کے دانشمند وں ميں ہوتا تتھا ـاور آپکي والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ہيں (4)آپ کا خاندان ايسے روحاني اور فداکار افراد پر مشتمل تہا جو خانہ کعبہ کي محفاظت کے عہد يدار تھے ـ جس وقت بادشاہ يمن "تبع "نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے يمن منتقل کرنے کا ارادہ کيا تو حضرت خديجہ کے والد ذات تہي جنہوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کي جس کے نتيجہ ميں مجبور ہوکر "تبع "کو اپنے ارادہ سے منصرف ہو نا پڑا ـ(5)
حضرت خديجہ کے جد اسد بن عبد العزي پيمان حلف الفضول کے ايک سرگرم رکن تھے يہ پيمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درميان ہو ا تہا جس ميں متفقہ طور پر يہ عہد کيا گيا تہا کہ مظلومين کي طرف سے دفاع کيا جائے گا اور خود رسول اکرم بھی اس پيمان ميں شريک تھے (6)"ورقہ بن نوفل "(حضرت خديجہ کے چچا زاد بہائي )عرب کے دانشمند ترين افراد ميں سے تھے اور انکا شمار ايسے افراد ميں ہوتا تہا جو بت پرستي کو نا پسند کرتے تھے ي (7)اور حضرت خديجہ کو چندين بار اپنے مطالعہ کتب عہدين کي بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد اس امت کے نبي ہيں ـ(8)خلاصہ يہ کہ اس عظيم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ،دانشمنداوردين ابراہيم کے پيرو تھے
تجارت
ايسے با عظمت افراد کي آغوش عاطفت کي پروردہ خاتون کي طبيعت ميں اپنے آبا و اجداد کي طرح رفق ودانشمندي کي آميزش تہي جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کي تجارت کو بطريقہ احسن سنبھال ليا اور اپنے متفکر اور زيرک ذہن کي بنا پر اپنے سرمايہ کوروز افزوں کرنا شروع کرديا ـ آپ کي تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنارتک پھیلی ہوئي تھی روايت کي گئي ہے کہ "ہزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مين تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جيسے ممالک کے اطراف ميں مصروف تجارت تھے" (9) جن کے ذريعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لي تھیـ
آپ کي تجارت ايسے افراد پر موقوف تھی جو بيرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکيں چنانچہ حضرت ختمي مرتبت کي ايمانداري ،شرافت ،اورديانت کے زير اثر حضرت خديجہ نے آپ کو اپني تجارت ميں شريک کرليا اور باہم قرار داد ہوئي اس تجارت ميں ہونے والے نفع اور ضرر ميں دونوں برابر شريک ہوں گے ـ(10) اور بعض مورخين کے مطابق حضرت خديجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کيا تہا ـ (11)ليکن اس کے مقابل دوسري روايت ہے جس کے مطابق رسول الله اپني حيات ميں کسي کے اجير نہيں ہوئے ـ (12) بہر کيف حضرت کاروان تجارت کے ہمراہ روانہ شام ہوئے حضرت خديجہ کا غلام ميرہ بہي آپ کے ساتھ تھا ـ(13)بين راہ آپ سے کرامات سرزد ہوئيں اور راہب نے آپ ميں علائم نبوت کا مشاہدہ کيا اور "ميسرہ"کوآپ کے نبي ہونے کي خبر دي ـ (14)تمام تاجروں کو اس سفر ميں ہر مرتبہ سے زيادہ نفع ہوا جب يہ قافلہ مکہ واپس ہوا تو سب سے زيادہ نفع حاصل کرنے والي شخصيت خود پيام اکرم کي تہي جس نے خديجہ کو خوش حال کرديا اس کے علاوہ ميسرہ (غلام خديجہ )نے راستے ميں پيش آنےوالے واقعات بيان کئے جس سے حضرت خديجہ آنحضرت کي عظمت و شرافت سے متاثر ہوگئيں
ازدواج
حضرت خديجہ کي زندگي ميں برجستہ و درخشندہ ترين پہلو آپ کي حضرت رسالت مآب کے ساتہ ازدواج کي داستان ہے ـجيسا کہ سابقہ ذکر ہوا کہ "حضرت خديجہ کي تجارت عرب کے ا طراف واکناف ميں پہيلي ہوئي تہي اور آپ کي دولت کا شہرہ تہا " چنانچہ اس بنا پر قريش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکہنے والے افراد چندين بار پيغام ازدواج پيش کرچکے تھے ،ليکن جنکو زمانہ جاہليت ميں "طاہرہ"کہا جاتاتہا (15)اپني پاکدامني اور عفت کي بنا پر سب کو جواب دے چکي تھیں ـحضرت جعفر مرتضيٰ عاملي تحرير فرماتے ہيں "ولقد کانت خديجہ عليہا السلام من خيرة النساء القريش شرفا واکثر ہن مالا واحسنہن جمالا ويقال لہا سيدةالقريش وکل قومہا کان حريصا ًعلي الاقتران بہا لو يقدر عليہا (16)الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج2/ص107)
"حضرت خديجہ قريش کي عورتوں ميں شرف و فضيلت ،دولت وثروت اور حسن وجمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالاتھیں اور آپ کو سيدہ قريش کہا جاتا تھا اور آپ کي قوم کا ہر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواہاں تھا"
حضرت خديجہ کو حبالئہ عقد ميں لانے کے متمني افراد ميں "عقبہ ابن ابي معيط ""صلت ابن ابي يعاب ""ابوجہل "اور "ابو سفيان "جيسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اورباحيثيت لوگوں ميں شمار کياجاتاتہا (17)ليکن حضرت خديجہ باوجود يکہ اپني خانداني اصالت ونجابت اورذاتي مال وثروت کي بناپر بے شمار ايسے افراد سے گہري ہوئي تہيں جو آپ سے ازدواج کے متمني اوربڑے بڑے مہرديکر اس رشتے کے قيام کوممکن بنانے کيلئے ہمہ وقت آمادہ تھے ہميشہ ازدواج سے کنارہ کشي کرتي رہتي تھیں ـکسي شريف اورصاحب کردار شخص کي تلاش ميں آپ کاوجود صحراء حيات ميں حيران وسرگرداں تھاـايسے عالم ميں جب عرب اقوام ميں شرافت وديانت کاخاتمہ ہوچکاتھا،خرافات وانحرافات لوگوں کے دلوں ميں رسوخ کرکے عقيدہ ومذہب کي شکل اختيار کرچکے تھے خود باعظمت زندگي گذارنااوراپنے لئے کسي اپنے ہي جيسے صاحب عزوشرف شوہر کاانتخاب کرناايک اہم اورمشکل مرحلہ تہا ،ايسے ماحول ميں جب صدق وصفاکافقدان تہاآپ کي نگاہ انتخاب رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھر گئي جن کي صداقت وديانت کاشہرہ تھا،حضرت خديجہ نے کم ظرف صاحبان دولت واقتتدار کے مقابلے ميں اعلي ظرف ،مجسمہ شرافت وديانت اورعظيم کردار کے حامل رسول کو جو بظاہر تنگ دست ،يتيم اوربے سہاراتھے ترجيح دے کر قيامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دياکہ دولت وشہرت اوراقتدار کي شرافت ،عزت اور کردار کے سامنے کوئي حيثيت نہيں ہےـالمختصر برسر اقتدار افراد کومايوس کرنے والي "خديجہ "نے باکمال شوق وعلاقہ ازطرف خود پيغام پيش کرديا (18)اورمہر بھی اپنے مال ميں قراردياجس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑہنے کے بعد فرمايا"لوگوں گواہ رہنا""خديجہ "نے خود کومحمدصلي الله عليہ وآلہ وسلم سے منسوب کيااورمہر بھی اپنے مال ميں قرار دياہے اس پربعض لوگوں نے ابوطالب عليہ السلام پرطنز کرتے ہوئے کہا ياعجباہ!المہر علي النساء للرجل (تعجب ہے مرد عورت کے مال سے مہر کي ادائيگي کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگي کااظہار کرتے ہوئے غضب کے عالم ميں فرمايا،"اذاکانوا مثل ابن اخي ہذاطلبت الرجل باغلي الاثمان وان کانوا امثالکم لم يزوجوا الابالمہر الفالي" (19) (اگرکوئي مردميرے اس بہتيجے کے مانند ہوگاتوعورت اس کوبڑے بھاري مہر دے کرحاصل کرينگي ليکن اگر وہ تمہاري طرح ہوا تواسکو خود گراںو بہاري مہر ديکر شادي کرناہوگي )ايک دوسري روايت کے مطابق حضرت نے اپنامہر (جو بيس بکرہ نقل ہواہے)خود ادا کياتھا (20)اور ايک روايت کے مطابق آپ کے مہر کي ذمہ داري حضرت علي نے قبول کرلي تھی،حضرت کي عمر کے سلسلے ميں تمام مورخين کااس پراتفاق ہے کہ حضرت خديجہ سے آپ نے پہلی شادي 25/سال کي عمر ميں کي ليکن خود حضرت خديجہ کي عمر کے بارے ميں کثير اختلاف وارد ہواہے چنانچہ25،28،30/اور40سال تک بہت کثرت سے روايات وارد ہوئي ہيں (21)ليکن معروف ترين قول يہ ہے کہ آپ کي عمر شادي کے وقت 40سال تھیـ (22)
رسول کي بعثت اورحضرت خديجہ کاايمان لانا
حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد عورتوں ميں جس شخصيت نے سب سے پہلے آپ کي تصديق کي اورآپ پر ايمان لائي وہ حضرت خديجہ کي ذات گرامي ہے (30)طبري نے واقدي سے روايت کي ہے کہ "اجتمع اصحابنا علي ان اول اہل القبلة استجاب لرسول الله خديجہ بنت خويلد (31)علماء کااس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کي آواز پر سب سے پہلے لبيک کہنے والي حضرت خديجہ کي ذات گرامي ہے )خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے "والله لقد امنت بي اذ کفر الناس واويتني اذ رفضني الناس وصدقتني اذکذبني الناس (32)خداکي قسم وہ (خديجہ )مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ہوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کردياتھااوراس نے ايسے موقع پر ميري تصديق کي جب لوگ مجہے جھٹلارہے تھے)
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں :ـلم يجمع بيت واحد يومئيذ في الاسلام غير رسول الله وخديجہ واناثالثہا (33)وہ ايسا وقت تھاجب روئے زمين پر کوئي مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خديجہ پر مشتمل تہا اور ميں ان ميں کي تيسري فرد تہا )ابن اثير کابيان ہے :ـاول امراء ةتزوجہا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمين لم يتقد مہاوجل ولاامراء ة" (34)حضرت خديجہ پہلي خاتون ہيں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کيااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آپ سے پہلے نہ کوئي مرد ايمان لايا اورنہ کسي عورت نے اسلام قبول کيا)
آنحضرت کي حضرت خديجہ(ع) سے محبت وعقيدت
حضرت خديجہ کي آنحضرت کي نگاہ ميں محبت و عقيدت اورقدرومنزلت کااندازہ اس بات سے لگاياجاسکتاہے کہ آپکي زندگي ميں آنحضرت نے کسي بہي خاتون کو اپني شريک حيات بناناگوارہ نہيں کيا (35)آپ کے بارے ميں حضرت کاارشاد ہےکہ "خديجہ اس امت کي بہترين عورتوں ميںسے ايک ہے
(36)آپ کي وفات کے بعد بہي ہميشہ آپ کو ياد فرماتے رہے (37)عائشہ کابيان ہے کہ مجہے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي کسي زوجہ سے اتناحسد نہيں ہواجتناخديجہ سے ہواحالانکہ خديجہ کي وفات مجھ سے قبل ہوچکي تھی اوراس حسد کاسبب يہ تھاکہ آنحضرت آپ کاتذکرہ بہت زيادہ فرماتے تھے (38)چنانچہ يہي سبب ہے کہ دوسر ي جگہ عائشہ سے روايت نقل ہوئي ہے کہ "ايک روز رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خديجہ کي تعريف فرمارہے تھے مجھے حسد پيداہوااورميں نے عرض کي يارسول اللہ خديجہ ايک ضعيفہ کے علاوہ کچھ بھی نہيں تھی جو مرگئي اورخدانے آپ کواس سے بہتر عطا کردي ہے (عائشہ کااشارہ اپني طرف تہا)رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم يہ سن کرناراض ہوگئے (39)اورغضب کے عالم ميں فرمايا"لاوالله ماابد لني اللہ خير امنہااٰمنت بي اذکفر الناس وصدقتني اذکذبني الناس وواستني بہالہااذحرمني الناس ورزقني منہاالله ولدادون غيرہامن النساء"(40)خدا کي قسم خدانے مجھ کو اس سے بہتر عطانہيں کي وہ مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ہوئے تھے اس نے ميري اس وقت تصديق کي جب لوگ مجھ کو جہٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذريعہ ميري اس وقت مدد کي جب لوگوں نے مجہے ہر چيز سے محروم کردياتہا اورخدانے صرف اسي کے ذريعہ مجہے اولاد عطافرمائي اورميري کسي دوسري بيوي کے ذريعہ مجہے صاحب اولاد نہيں کيارسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کي حضرت خديجہ کيلئے محبت اورعقيدت واحترام کااندازہ ہوتاہے ـخديجہ کااسلام کيلئے اپنااورسب کچھ قربان کرکے بھی اسلام کي نشرواشاعت کاجذبہ ہي تھاجس نے اسلام کودنياکے گوشہ وکنار تک پہنچنے کے مواقع فراہم کئے اوريہي سبب تھا کہ "حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کي بشارت ديدي تھی "عائشہ سے مسلم نے روايت نقل کي ہے کہ "بشر رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم بنت خويلد ببيت في الجنة "(حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے خديجہ سلام الله عليہاکو جنت کي بشارت دي تھی )(41)حضرت خديجہ اور ابوطالب رسول کے دو ايسے مدافع تھے جنکي زندگي ميں کفار قريش کي طرف سے آپ کو کوئي گزند نہيں پہنچا ليکن رسول کے يہ دونوں جانثار ايک ہي سال بہت مختصر وقفہ سے يکے بعد ديگرے دنياسے رخصت ہوگئے اورروايات کے مطابق رسول پر دونوں مصيبتيں ہجرت سے تين سال قبل اورشعب ابي طالب سے باہر آنے کے کچہ روز بعد واقع ہوئيں (42)رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار ديا(43)اوريہ مصيبت رسول کيلئے اتني سخت تھی کہ رسول خانہ نشين ہوگئے اورآپ نے حضرت خديجہ اورابوطالب کي وفات کے بعد باہر نکلنابہت کم کردياتھا (44)ايک روز کسي کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دي رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم اسي حالت ميں گہر ميں داخل ہوئے آپ کي زبان پر يہ کلمات تھے"مانالت مني قريش شيا اکرہہ حتي مات ابوطالب"(45) قريش ابوطالب کي زندگي ميں مجھ کوکوئي گزند نہيں پہنچا سکے)آپ حضرت ابوطالب اورخديجہ کي زندگي ميں اطمينان سے تبليغ ميں مصروف رہتے تھے ـخديجہ گھر کي چہار ديواري ميں اور ابوطالب مکہ کي گليوں ميں آپ کے مدافع تھے۔
حضرت خديجہ جب تک زندہ رہيں رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اطمينان وسکون کا سبب بني رہيں دن بھر کي تبليغ کے بعد تھک کر چور اورکفار کي ايذارسانيوں سے شکستہ دل ہوجانے والارسول جب بجھے ہوئے دل اورپژمردہ چہرے کے ساتہ گہر ميں قدم رکہتاتو خديجہ کي ايک محبت آميز مسکراہٹ رسول کے مرجھائے ہوئے چہرے کوپھر سے ماہ تمام بنادياکرتي تھی ،خديجہ کي محبتوں کے زير سايہ کشتي اسلام کاناخدا عالمين کيلئے رحمت بنکر دنياکي ايذارسانيوں کو بہلاکر ايک نئے جوش و جذبے اورولولے کے ساتھ ڈوبتے ہوئے ستاروں کاالوداعي سلام اورمشرق سے سرابہارتے ہوئے سورج سے خراج ليتاہواايک بار پھر خانہ عصمت وطہارت سے باہر آتا اورباطل کو لرزہ براندام کرنے والي لاالہ الاالله کي بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے دروديوارہل کررہ جاتے کفارجمع ہوتے رسول پر اذيتوں کي يلغار کرديتے ليکن انسانيت کي نجات اورانسانوں کي اصلاح کاخواب دل ميں سجائے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خوش آيند مستقبل کے تصور ميں ہر مصيبت کاخندہ پيشاني سے مقابلہ کرتے رہے اورآپ کے اسي صبر وتحمل اورآپ کي پاکدامن زوجہ کے تعاون اورجانثاري سے آج ہم مسلمانان جہان پرچم توحيد کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کوشرمندہ تعبير کرنے کے لئے آپ کے اس آخري جانشين کے انتظار ميںسرگرداں ہيں جوزمين کوعدل وانصاف سے پر کرديگا ـ
حوالے
1ـ صحيح مسلم /44/76/2435، ترمذي کتاب مناقب حديث /3901، کنز العمال ح/ 13/ص/693 2ـ اسد الغابہ ج/5 ص / 438 ، مسلم فضائل صحابہ / 3437 ، البدايہ و النہايہ ج/ 3 ص / 158 3ـ بحار ج/ 16 ص/ 12 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 439 4ـ طبقات ابن سعد ج/ 1 ص /88 5ـسيرة ہشام ج/ 4 ص / 281 ، الاصابہ ج / 4 ص / 281،طبري ج / 3 ص / 33 6ـالبدايہ و النہايہ ج / 2 ص / 262 7ـ سيرة حليہ ج / 1 ص / 131 ، طبقات ابن سعد ج/ 1 ص / 86 ، حيات النبي و سيرتہ ج / 1 ص / 60 8ـ سيرة ہشام ج/ 1 ص / 259 9ـ البدايہ و النہايہ ج/ 2 ص / 362 ، سيرة ہشام ج / 1 ص / 338 10ـ بحار ج / 16 ص / 22 11ـ البدايہ و النہايہ ج / 2 ص / 258 12ـ البدء و التاريخ ج / 2 ص / 47 13ـ تاريخ يعقوبي ج / 1 ص / 376 14ـ بدايہ و النہايہ ج / 2 ص / 358 ، طبري ج / 2 ص / 204 15ـ الکامل في التاريخ ج/ 1 ص / 472 ، دلائل النبوة ج / 2 ص / 66 16ـ سيرة حلبيہ ج / 1 ص / 135 ، البدايہ و النہايہ ج / 2 ص / 358 ، الکامل في التاريخ ج / 1 ص / 472 17ـ السيرة النبويہ (دحلان ) ج / 1 ص/ 92 18ـبدايہ والنہايہ ج/ 2 ص / 358، بحار الانوار ج/ 16 ص / 22 19ـبحار الانوار ج/ 16 ص / 22 20ـ سيرة حلبيہ ج / 1 ص /140 ، طبري ج/ 2 ص / 205 21ـ الصحيح من سيرة النبي ج / 2 ص / 112 ـ113 ، بحار الانوار ج / 16 ص / 14 22ـسيرہ ہشام ج / 1 ص 227 23ـالبدايہ و النہايہ ج / 2 ص / 360 ، البدء و التاريخ ج/ 2 ص / 48 24ـسيرہ حلبيہ ج / 1 ص /140، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ 2 ص / 115 25ـفروغ ابديت ج/ 1 ص / 198 26ـ سيرہ حلبيہ ج / 1 ص/ 140 27ـ طبري ج / 3 ص / 36 28ـمناقب آل ابيطالب ج / 1 ص / 206 ، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج / 2 ص / 122 29ـمناقب آل ابيطالب ج / 1 ص / 26 30ـ الاصابہ ج / 1 ص / 293 31ـالاصابہ ج / 4ص /335 ، اسد الغابہ ج / 5 ص / 481 ، حياة النبي ج /1 ص / 121 32ـ الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ 2 ص 125 33ـ الانساب الاشراف ج / 2 ص / 23 ، الاصابہ ج / 8 ص /99 ، سيرة ہشام ج / 1 ص / 277، طبري ج/ 2 ص / 232 ـ 221 34ـ تاريخ طبري ج / 2 ص / 232 35ـبحار الانوار ج / 16 ص / 12 ، اسد الگابہ ج / 2 ص / 439 36ـ نہج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ ) 37ـ اسد الغابہ ج / 5 ص / 434 38ـ البدء و التاريخ ج / 2 ص / 48 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 360 39ـ الاصابہ ج / 8 ص /101 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 431 ، سنن ترمذي کتاب مناقب / 388
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: