نجف اشرف میں مقیم اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ الوارف کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ شیخ عبد المھدی کربلائی دام عزہ نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں مختلف عقائد اور نظریات کے حامل لوگوں کے آپس میں مل جل کر رہنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے حوالے سے گفتگو کی اور اعلیٰ دینی قیادت کی نظر میں مسلمانوں اور عراقی عوام کے آپس میں مل جل کر رہنے کے طریقوں اور اس کی ضرورت کو مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا:
1:۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اصول دین اور فروع دین میں بہت سی ایسی مشترک اشیاء ہیں کہ جو جزوی اختلافات کے باوجود ثقافتی ہم آہنگی اور دوسرے کے احترام پر مبنی تبادلہ خیال و مباحثہ کا تقاضہ کرتی ہیں کہ جس سے تمام مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت اور ہم وطنوں کے درمیان تعلق محفوظ رہ سکتا ہے۔
2:۔رسول خدا(ص) کی حدیث ہے کہ تمام مسلمانوں محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کی مانند ہیں جب اس کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ یہ حدیث آپس میں دلی ارتباط، شفقت و محبت کا شعور، رحم دلی اور محبت کو فرض کرتی ہے اور دوسروں کی طرف مثبت پہلووں سے بڑھنے کا تقاضہ کرتی ہے جس سے اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور قطع تعلقی سے دوری حاصل ہوتی ہے۔
3:۔ متعدد ادیان اور مذاہب کے بارے میں لوگوں کا ایمان اور تعلق ایک حقیقی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لہٰذا امن و امان اور مل جل کر رہنا ہی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو موجودہ حالات اور تاریخی حقائق کی بنا پر ہم پر فرض ہے۔لہٰذا ایسے مثبت طریقوں اور برتاؤ کا جاننا ضروری ہے کہ جس کے ذریعے مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو اکٹھا رکھا جا سکتا ہے اور شدت پسندی سے دوری اختیار کی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ دوسرے کے ساتھ برتاؤ میں عقل، حقیقت اور عدل و انصاف سے کام لیا جائے۔
4:۔کسی بھی نظریہ کے حامل شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریہ کا دفاع کرے اور دوسروں کو دلیل اور علمی اسلوب کے ذریعے اس کا قائل کرے لیکن اس میں دوسرے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کی عزت، احساسات اور مقدسات کو مجروح نہیں کرنا چاہیے اس طرح سے ایک ملک کے بیٹے آپس میں مل جل کر رہ سکتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل حق حق پر مبنی بات کرنا چھوڑ دیں اور باطل کی تائید کرنا شروع کر دیں لیکن اپنی گفتگو میں ایسے صحیح طریقہ کو اپنانا ضروری ہے کہ جس سے لوگوں کے درمیان نفرت اور کینہ نہ پھیلے۔
5:۔سب سے خطرناک سبب جس کی وجہ سے بے گناہوں کا بہت زیادہ خون بہایا گیا ہے وہ مد مقابل کو صرف عقائدی اختلاف کی وجہ سے کافر قرار دینا ہے لہٰذا اسلامی معاشرے کی حفاظت کے لیے اس سے پرہیز کرنا وقت کی عین ضرورت ہے۔
6 :۔ مسلمانوں اور ملک کی عمومی مصلحت کے بارے میں آگاہی ان چھوٹے چھوٹے امور سے بڑھ کر ہے کہ جنہیں بعض لوگ اپنے مذہب یا گروہ کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں لہٰذا اس بنا پر شہریوں کے حقوق کے ضمن میں برابری کی بنیاد پر سب کے ثقافتی، اقتصادی اور معاشرتی حقوق کا خیال رکھا جائے مشترکہ مفادات اور مصلحت کی بنیاد پر امن و امان اور مل جل کر رہا جائے اور اختلافی امور سے دوری اختیار کی جائے۔
7:۔ امن و امان کو جو چیز زیادہ نقصان دیتی ہیں وہ اپنے عمومی خطابات میں علمی اسلوب سے دوری اختیار کر کے دوسروں کے ساتھ کثرت سے بحث و مباحثہ اور ان پہ تنقید ہے۔ جو بھی اسے تسلیم کر لیتا ہے وہ اپنے آپ کے ساتھ ہی اچھائی کرتا ہے اور جو اسے تسلیم نہیں کرتا اس کا حساب اللہ پہ ہے (بے شک آپ پر صرف بات پہنچانا فرض ہے اور حساب لینا ہماری ذمہ داری ہے)