تلعفر کی جنگ میں لڑنے والے جنگجوؤں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور کارکردگی کی وجہ سے میدان جنگ میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں

تلعفر کی جنگ میں لڑنے والے جنگجوؤں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور کارکردگی کی وجہ سے میدان جنگ میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں، جس نے عراقی عوام کو خوشی بخشی۔ مختلف محاذوں پر تین سالوں کی سخت لڑائی کے باوجود ان عظیم انسانوں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اب بھی عزت، وقار اور جرئت سے وطن کی محبت میں بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں، لہذا عراقی عوام کو ان ہیروں کی مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ جو موجودہ حال اور مستقبل میں سلامتی کے ضامن ہیں اور پوری تاریخ میں فخر اور فخر کا ذریعہ ہیں۔
روضہ مبارک امام حسین(ع) کے متولی شرعی اور اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی نے ان خیلات کا اظہار (2ذي الحجّة 1438هـ) بمطابق (25اگست 2017ء) کو نماز جمعہ کے خطبہ میں کیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنگجوؤں کی قربانیوں کی تعریف کرتے ہیں، ان کی کامیابیوں پہ مبارکباد پیش کرتے ہیں، اور ان کی شہادتوں کا احترام کرتے ہیں، زخمیوں کی جلد از جلد صحت یابی کے لیے خدا سے دعا گو ہیں۔
اور ہم انھیں نصحیت کرتے ہیں کے داعشی دشمن سے محتاط رہیں اور خدا پر اعتماد اور اس کی حمایت اور فتح پر یقین کے ساتھ فوجی منصوبہ بندی پر عمل کریں۔
شیخ الکربلائی نے جنگجوؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا، رہائشی علاقوں میں پھنسے ہوئے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور ان معصوم انسانی جانوں کی بازیابی کے لیے دشمن کے خلاف تمام تر وسائل کو استعمال کیا جائے اور شہریوں کومحفوظ پناہ گاہیں فرہم کی جائیں۔
شیخ الکربلائی نے جنگ میں شرکت کرنے والے مختلف فوجی گروہوں اور ان کے درمیان مکمل تعاون کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا، کہ جس کی وجہ سے چند روز کے اندر اندر طے شدہ اہداف اور تلعفر شہر اور اس کے مضافات کی آزادی اسی کا نتیجہ ہے۔
خطبہ کے اختتام پر طبی اہلکاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تمام اور درمیانے درجے کے ڈاکٹرز اور طبی اہلکار جنگ زدہ علاقوں میں زخمیوں کی دیکھ بھال کریں،اور زخمی جنگجوؤں کو محفوظ مقام پر پہنچا کر ہر ممکن ذرایعہ سے ان کا علاج کیا جائے، یہ طرف ایک انسانی مشن ہی نہیں بلکہ فوجی کاروائیوں کی بحالی کے لیے اہم کردار ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک قومی ذمہ داری، مذہنی اور اخلاقی فریضہ ہے، جس میں جس قدر ہو سکے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے۔
ہم اچھی شہریت کے بنیادی اصولوں پر بات کرتے ہیں
اچھے شہری کا کردار کیسے بنایا جا ئے؟ اچھے شہری کا مطلب کیا ہے؟ اور اس کی بنیادوں کو کس طرح مضبوط کیا جائے؟
ہر قوم اور عراقی عوام اگر انصاف، تحفظ، استحکام، سماجی ہم آہنگی، اقتصادی خوش حالی اور ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو بلند اہداف حاصل کرنے کے لیے مخصوص بنیادوں پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مہیا کریں، تاکہ وہ اپنے وطن اور سرزمین کے ساتھ وفادار رہیں، ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے باہمی تعاون بہت ضروری ہے۔
کیا اسلام وطن سے محبت اور وطن کی حفاظت ، اس کے وقار اور آزادی اور بایمی احترام کا حکم دیتا یے؟
درحقیقت اگر ہم احادیث پر غور کریں تو روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے وطن سے محبت، اس کا دفاع اور قربانی پر بہت توجہ دی ہے۔
شیخ الکربلائی نے کہا کہ میں ایک اہم نقطہ نظر کو واضح کرنا چاہتا ہوں، کہ ہم یہاں شہریوں اور ان کے حقوق کے متعلق بات نہیں کر رہے، بلکہ ہم یہاں اچھے شہری کے کردار کی تعمیر کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو کے ملک کی تعمیر اور اچھے کاموں میں حصہ لے، اور دوسرے شہریوں کے لیے خطرناک اور نقصان دہ نہ ہو۔
یہاں ہم امیرالمومینین علیہ السلام کی اس حدیث کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ جو انھوں نے جناب مالک اشتر کو نصیحت فرمائی: ﴿کہ اے مالک لوگ دو قسم کے ہیں، یا تو مذہب میں تمھارے بھائی ہیں یا تخلیق میں تمھارے برابر ہیں﴾
امیرالمومینین علیہ السلام کے یہ الفاظ ہر شہری کے لیے مشعل راہ ہیں، جو کہ اپنی قوم و ملت کی تعمیر کے لیے بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: