حضرت عباس(ع) کا سر زمین شھادت کی طرف اپنے بھائی امام حسین (ع) کے ساتھ سفر

مدینہ سے مکہ آنے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے حجاج کو یزید کے جرائم اور بنو امیہ کی اسلام دشمنی سے آگاہ کرتے رہے اور جب حج کا موسم آیا تو حج کا احرام پہن لیا تا کہ خانہ خدا کی حج کی ادائیگی کر سکیں لیکن یزید ملعون نے عمرو بن سعید بن عاص کو ایک لشکر کے ساتھ حاجیوں کے لباس میں بھیجا اور اسے حکم دیا کہ اگر امام حسین علیہ السلام خانہ کعبہ کے پردوں میں بھی ہوں تب بھی انہیں قتل کردو۔ امام حسین علیہ السلام تک جب یہ خبر پہنچی تو آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور احرامِ حج کھول دیئے تا کہ ان کے قتل سے کعبہ اور ماہِ حج کی حرمت پامال نہ ہو اور دوسری طرف جناب مسلم علیہ السلام کی طرف سے بھی امام حسین علیہ السلام کو ایک خط مل چکا تھا کہ جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوفہ والے جان و مال کے ذریعے فرزندِ بتول کی مدد و نصرت کے لیے تیار ہیں اور اپنے ملک میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کی مثل حکومت قائم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پس حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئے کہ جن کو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے اہلِ بیت علیھم السلام کے جوانوں نے گھیر رکھا تھا اور ان جوانوں کی سربراہی حضرت عباس علیہ السلام کر رہے تھے حضرت عباس علیہ السلام کے ہاتھوں میں موجود علم مکہ سے کربلا تک اپنے بھائی پہ سایہ فگن رہا پورے راستے میں حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے بچوں اور خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعلق رکھنے والی خواتین کا مکمل خیال رکھا اور پورے قافلہ کی مکمل دیکھ بھال کی اور پورے راستے میں خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچوں کو کوئی معمولی سی بھی تکلیف نہ پہنچی اور ان کے آرام و سکون کا اتنا زیادہ خیال رکھا کہ جس کو بیان کرنا یا تحریر کرنا قلم کے بس میں نہیں۔
ان مشکل ترین حالات میں امام حسین علیہ السلام اس یقین کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ جن لوگوں نے کوفہ آنے کی دعوت دی ہے وہی لوگ مجھے اور میرے اہل بیت علیھم السلام و انصار کو شہید کریں گے۔ راستہ میں امام حسین علیہ السلام کی ملاقات مشہور و معروف شاعر فرزدق ھمام بن غالب سے ہوئی تو فرزدق نے امام حسین علیہ السلام سے کہا اے فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کس وجہ سے آپ اتنی جلدی میں حج ترک کر کے آئے ہیں؟
تو امام حسین علیہ السلام نے ساری صورت حال کو واضح کرتے ہوئے فرمایا اگر میں اتنی جلدی نہ کرتا تو وہ مجھے وہیں قتل کر دیتے۔ پھر امام علیہ السلام نے فرزدق سے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ فرزدق نے جواب دیا کہ میں کوفہ سے آرہا ہوں۔ پھر امام علیہ السلام نے پوچھاکوفہ کے لوگوں کی کیا صورت حال ہے؟ تو فرزدق نے حقیقت حال کو واضح کرنے کے لیے کہا کوفہ والوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں آپ کے خلاف بنی امیہ کے ساتھ ہیں اور قضا و قدر آسمان سے نازل ہو رہی ہے اللہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
پس امام علیہ السلام نے فرزدق کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تم نے سچ کہا گزری ہوئی اور آنے والی ہر چیز خدا کی قدرت میں ہے وہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے ہر روز ہمارے رب کی ایک نئی شان ہے پس اگر خدا نے قضا و قدر کو اس طرح سے قرار دیا کہ جس کو ہم پسند کرتے ہیں تو ہم اس کی نعمات پر اس کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور وہی شکر کی ادائیگی میں مدد کرنے والاہے اور اگر امید کے بر خلاف قضا و قدر مقرر ہوئی تو اس شخص کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ جس کی نیت حق پر مبنی ہو اور جس کا ارادہ تقویٰ پر مشتمل ہو اور پھر امام علیہ السلام نے یہ اشعار پڑھے
لئن کانت الدنیا تعد نفسیة فدار ثواب اللہ اعلی و انبل
و ان کانت الابدان للموت انشئت فقتل امریء بالسیف فی اللہ افضل
و ان کانت الارزاق شیئ مقدرا فقلة سعی المرء فی الرزق اجمل
و ان کانت الاموال للترک جمعھا فما بال متروک بہ امرء یبخل
ترجمہ: اگر دنیا نفیس و خوبصورت شمار ہوتی ہے تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ اجر و ثواب کے طور پر گھر اس دنیا سے کہیں زیادہ اعلیٰ و بہترہے۔ اور اگر یہ جسم موت کے لیے پیدا ہوئے ہیں تو انسان کا خدا کی راہ میں تلوار سے قتل ہونا بہت ہی افضل ہے۔ اور اگر رزق تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے تو انسان کا رزق کے لیے کم کوشش کرنا بہت ہی اچھا ہے۔ اور اگر سارا کا سارا مال اسی دنیا میں چھوڑ کر جانا ہے تو اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو چھوٹ جانے والی چیز میں کنجوسی کرتا ہے۔ یہ اشعار امام حسین علیہ السلام کے زہد و تقویٰ اور دنیا میں رغبت نہ ہونے اور خدا سے ملاقات کے شوق پر دلالت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں جہاد اور شہادت کے ارادے کو واضح کرتے ہیں۔

کربلا کی جانب پورے سفر کے دوران حضرت عباس علیہ السلام اپنے بھائی اور امام سید الشھداء (ع) کے ہمراہ رہے اور اپنی وفاء اور جانثاری کی عظیم تاریخ رقم کرتے رہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: