جرمنی میں قائم انسٹی ٹیوٹ برائے آثار قدیمہ میں مشرقِ قریب سیکشن کی ڈائریکٹر پروفیشر مارگریٹ وین اس کا کہنا ہے الکفیل میوزیم میں موجود اشیاء اور انہیں پیش کرنے کا خوبصورت طریقہ عراق کی روشن تمدنی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے اور اس کی تاریخ کے اہم مراحل کی ترجمانی کرتا ہے اس کانفرنس کا انعقاد نا صرف عراقیوں بلکہ عجائب گھروں کے تمام ماہرین کے لیے تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا دروازہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار پروفیسر مارگریٹ نے دوسری سالانہ الکفیل کانفرنس برائے میوزیمز کی افتتاحی تقریب میں کیا کہ جو بروز جمعرات 15 ذوالحجۃ 1438ھ بمطابق 7 ستمبر 2017ء کو روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام میں منعقد ہوئی۔
پروفیسر مارگریٹ نے اپنی گفتگو کی ابتداء میں کہا کہ میرے لیے اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنا اور یہاں آئے ہوئے غیر ملکی وفود کی نمائندگی کرنا بہت ہی شرف کی بات ہے عجائب گھروں میں موجود اشیاء کسی بھی معاشرے اور اس کی تاریخ کی شناخت ہوتی ہیں یہ اشیاء ہمیں لوگوں کے ایک دوسرے پہ اثراور مختلف تاریخی و دینی اصولوں کی یاد دلاتی ہیں اور تاریخ میں ہونے والے مختلف واقعات کی گواہی دیتی ہیں تمدنی ورثہ صرف عجائب گھروں میں موجود اشیاء ہی نہیں بلکہ وہ غیر منقولہ آثار قدیمہ بھی ہیں جن کا ایک بڑا حصہ عراق میں موجود ہے آج آثار قدیمہ بہت سے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں کہ جن میں ان کی تباہی اور توڑ پھوڑ سر فہرست ہے جیسا کہ داعش نے عراق کے شمالی علاقوں میں واقع اہم ترین آثار قدیمہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
ہم نے عراق اور اس کے آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اداروں کے ساتھ کام کیا ہے اور ہمارا یہ تعلق 1955 سے قائم ہے ہم نے اس سلسلہ میں جو خدمات سر انجام دی ہیں ان میں سے ایک الکفیل میوزیم میں مشترکہ کام بھی ہے۔