عید غدیر کہ جس دن رسول اکرم(ص) نے لاکھوں مسلمانوں کے سامنے حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا

رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس ہجری میں حج کرنے کا فیصلہ کیا یہ سال آپ کی زندگی کا آخری سال تھا لہذا اس وجہ سے اس حج کو حجة الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس حج کو حجة الاسلام، حجة البلاغ، حجة الکمال اور حجة التمام بھی کہا جاتا ہے۔ اس حج کو حجة البلاغ کا نام دینے کی وجہ حج سے واپسی پر اس آیت کا نزول ہے: يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ {المائدة: آية 67}۔ اس حج کو حجة التمام اور حجة الکمال کہنے کی وجہ حج سے واپسی پر اس آیت کا نزول ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي {المائدة: آية 3}.

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو اپنے ساتھ حج کے فریضہ میں شامل ہونے کی دعوت دی تاکہ اس مبارک سفر کے احوال سے زیادہ سے زیادہ مسلمان آگاہی حاصل کر سکیں، رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج پہ جانے کی خبر ہر طرف تیزی سے پھیل گئی جس کے بعد مسلمان جوق در جوق مدینہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے تا کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قافلہ میں شامل ہو کر حج کی سعادت حاصل کر سکیں، روایات کے مطابق رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے ایک لاکھ بیس ہزار افراد حج کے لئے نکلے اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ اسی ہزار افراد نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ سفرِ حج کیا۔ یمن، مکہ اور بہت سے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں نے بہت بڑی تعداد میں آپ(ص) کے ساتھ شامل ہو کر حج کی سعادت حاصل کی۔

فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد جب رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اٹھارہ ذی الحجہ کو یہ قافلہ خم نامی جگہ پر پہنچا اور اس جگہ ایک تالاب تھا کہ جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا تھا اس تالاب کو غدیر کہا جاتا تھا جب قافلہ غدیر خم کے پاس پہنچا تو جناب جبرائیل اللہ کا یہ پیغام لے کر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِين سورۃ المائدة: آية 67.

ترجمہ: اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگرآپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا آپ نے اس کی رسالت کا کوئی کام نہیں کیا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ تعالی کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔

جناب جبرائیل نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں خدائی حکم اور دین و شریعت میں حضرت علی علیہ السلام کی حیثیت سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آگاہ کیا اور آپ کو بتایا کہ خدا کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اللہ کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں کا اصل گھر جنت اور دشمنوں کا اصل ٹھکانہ جہنم ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وحی کے نازل ہونے کے بعد ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اور خطبہ کے دوران تمام حاجیوں سے فرمایا:اے لوگو!کیا میں تمام مومنین پر خود ان کی ذات سے بھی زیادہ اختیار اور اولویت نہیں رکھتا؟ جس پہ سب نے یک زبان ہو کر کہا:ہاں آپ ہی تمام مومنین کے نفوس پر تصرف کا سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔

پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: من كنت مولاه فهذا علي مولاه جس کا میں مولا و آقا ہو ں یہ علی بھی اُس کا مولا و آقا ہے۔

پھر آنحضرت(ص) دست دعا بلند کر کر فرمایا: اللهم وال من والاه وعاد من عاداه، وأحب من أحبَّه، وابغض من أبغضه، وانصر من نصره، واخذل من خذله، وأدر الحق معه حيث دار،

اے اللہ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر، جو اس کی مدد سے کنارہ کش ہو جائے تو بھی اس کو اپنی مدد سے محروم کر دے اور جہاں علی جائے حق کو بھی ادھرموڑ دے۔

پھر تمام حاضر ین سے مخاطب ہوکر آنحضرت(ص) نے فرمایا: ألا فليبلِّغ الشاهد منكم الغائب.

تمام حاضرین آگاہ ہو جائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو اُن لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں پر اِس وقت موجود نہیں ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس اعلانِ ولایت کے بعد تمام مسلمان بیعت اور مبارک بادی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے خیمہ میں آنے لگے سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو ان الفاظ میں مبارکباد پیش کی:

بخ بخ لک یا علی اصبحت مولانا و مولی کل مومن و مومنۃ مبارک ہو! مبارک ہو! اے علی کہ آپ ہمارے اور ہر مومن اور مومنہ کے مولا و آقا بن گئے ہیں۔

اس اعلان کے بعد جناب جبرائیل وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان الفاظ میں خدائی پیغام پہنچایا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً {المائدة: آية 3}

ترجمہ: آج ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ہے۔

اس موقع پر حسان بن ثابت نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا:اے اللہ کے رسول اگر آپ اجازت دیں تو میں اس مناسبت سے کچھ ایسے اشعار پڑھوں جن سےعرش معلی پرخدا بھی راضی ہوجائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اے حسان خدا کا نام لے کر شروع کر و۔

اجازت ملنے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار پڑھے:

يناديهم يوم الغـدير نبيهم بخم وأسمع بالـرسول مناديـا

روزِ غدیر ان کا نبی(ص) مقامِ خم میں ان سے پوچھ رہا ہے اور میں رسول کو یہ کہتے ہوئے سن رہا ہوں:

فقال: فمن مولاكم ونبيكم؟ فقالوا ولم يبدو هناك التعامـيا

تمہارامولاا ور نبی کون ہے؟ تو مسلمانوں نے صاف صاف کہا:

إلهك مـولانا وأنت نبيـنا ولم تلق منا في الولاية عاصـيا

خداوندعالم ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے نبی ہیں، آپ ہم کو ولایت کے حکم کی مخالفت کرتا ہوا نہیں پائیں گے۔

فقال له: قم يا علي؟ فإنني رضيتك من بعدي إماما وهاديا

اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: اےعلی اٹھو! کیونکہ میں نے تمہیں اپنے بعد امام اور ہادی مقرر کیا ہے۔

فمن كنت مولاه فهذا وليه فكونوا له أتباع صدق مواليـا

پس جس کامیں آقا ہوں، اُس کا یہ علی ولی و سرپرست ہے، لہٰذا تم سچے دل سے اس کے پیروکار بن جاؤ۔

هناك دعا اللـهم وال وليه وكن للذي عادا عليـا معاديا

اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے دعا فرمائی: پالنے والے! علی کے دوست کو دوست رکھ، علی کے دشمن کو دشمن۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان اشعار کو سننے کے بعد فرمایا: اے حسان تم نے جو اپنی زبان سے ہماری مدد ونصرت کی ہے اس میں تمہیں روح القدس کی تائید و حمایت حاصل تھی۔

خشبوئےِ ولایت کا معجزاتی طورپرچار سُو پھیلنا

غدیرِ خم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنانے کی خبر ہر طرف پھیل گئی کیونکہ اس اعلانِ خلافت و امامت کے لیے جو موقع اللہ تعالی نے اختیار کیا تھا اس میں بہت سی حکمتیں اور فوائد پوشیدہ تھے جس اجتماع میں اور جس جگہ پر یہ اعلان کیا گیا وہ اپنی اہمیت کے حوالے سے بے مثل و بے مثال تھی۔ غدیر خم کے بعد لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں کی طرف جانے کے لیےمختلف راستوں پر سفر شروع کر دینا تھا لہذا اللہ نے اس خبر کی نشر و اشاعت کے لئے خاص انتظامات کیے اور ایسا منفرد طریقہ اختیار کیا کہ جو اس سے پہلے شرعی احکام کے لیے کبھی اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ اس اہمیت کی وجہ دین و شریعت کی وہ بنیاد تھی کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کی صورت میں تا ابد باقی رہناتھی لیکن افسوس کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے جانے کے بعد غدیر کو فراموش کر دیا گیا اور…….

بہر حال جب جانشینی کی خبر تمام اسلامی مناطق میں پہنچی تو کچھ لوگوں نے اسے خوشی سے قبول کیا اور کچھ نے اس خدائی حکم پر سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا اور انہی لوگوں میں سے ایک نعمان بن حارث فہری بھی تھا نعمان نے جب یہ خبر سنی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا ہے تو وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:آپ نے خدا کی طرف سے ہمیں حکم دیا کہ ہم گواہی دیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں ،آپ نے ہمیں جہاد ،حج ،روزے ،نماز اور زکوة کا حکم دیا ہم نے اسے قبول کیا لیکن پھر بھی آپ راضی نہ ہوئے اور بالآخر آپ نے اپنے چچا زاد کو ہم پر مسلط کر دیا اور فرمایا:جس کا میں مولا و آقا ہوں اس کا علی بھی مولا و آقا ہے۔آپ یہ بتائیں کیا یہ بات آپ نے خود اپنی طرف سے کہی ہے یا خدا نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟

تو رسول خدا نے فرمایا:اس ذات کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ حکم خدا ہی کی طرف سے آیا تھا۔

یہ سن کر نعمان مڑا اور کہنے لگا:اے اللہ اگر یہ تیرے نزدیک حق ہے تو مجھ پر پتھروں کی بارش کر دے۔

یہ کہنے کی دیر تھی کہ نعمان ابھی اپنی سواری کے پاس بھی نہ پہنچا تھا کہ اللہ کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر گرا اور اس کے دبر سے باہر نکل گیا اور وہ اسی جگہ ہلاک ہو گیا۔

اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی : سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِعٍ {سورة المعارج: آية 1}

ترجمہ: ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے۔

واقعہ غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کرنے والے اہل سنت کے علماء

علامہ سید حامد موسوی کی کتاب عبقات الانوار، علامہ امینی کی کتاب الغدیر، علامہ نور اللہ شستری کی کتاب احقاق الحق، کتاب نفحات الازھار اور بہت سی دوسری کتابوں میں ہمارے علماء نے اہل سنت کی ان سینکڑوں معتبر کتابوں کے نام تحریر کیے ہیں جن میں غدیر خم کا واقعہ اور حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان واضح الفاظ میں مذکور ہے۔ غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے اعلان کو اپنی کتابوں میں ذکر کرنے والے اہل سنت کے سینکڑوں علماء اور ا ُن کی کتابوں کے بارے میں جاننے کے لیے مذکورہ بالا کتابوں کا مطالعہ کریں۔

ہم اس مضمون میں واقعہ غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کرنے والے اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے چند علماء اور کتابوں کے نام قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

الحاكم: کتاب المستدرك على الصحيحين

الحافظ الذهبي: کتاب تلخيص

ابن حجر العسقلاني: کتاب الإصابة

المقريزي: کتاب الخطط

امام أحمد: کتاب مسند احمد

البيهقي: كتاب الاعتقاد

السيوطي: کتاب الجامع الصغير / کتاب تاريخ الخلفاء

المحب الطبري: کتاب الرياض النضرة /کتاب ذخائر العقبى

ابن خلكان: کتاب وفيات الأعيان

الخطيب البغدادي: کتاب تاريخ بغداد

ابن قتيبة: کتاب الإمامة والسياسة

ابن تيمية: کتاب حقوق آل البيت

سبط ابن الجوزي: کتاب تذكرة الخواص

امام مسلم: کتاب صحيح مسلم

النسائي: کتاب الخصائص

ابن المغازلي: کتاب المناقب

المتقي الهندي: کتاب كنز العمال

القرطبي: کتاب الجامع لأحكام القرآن

الحاكم النيسابوري: کتاب شواهد التنزيل

امام غزالي: کتاب سر العالمين وكشف ما في الدارين

الشهرستاني: کتاب الملل والنحل
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: