انقلابِ کربلا میں تاریخی کردار ادا کرنے والی جناب رملہ(ع)

انقلابِ کربلا میں جن خواتین نے تاریخی کردار ادا کیا ان میں سے ایک جناب قاسم بن حسن ؑ کی والدہ جناب رملہ بھی ہیں ۔ روایات کے مطابق ان کی کنیت ام فروا ہے۔ معروف مورّخ محلاتی کے بقول جناب رملہ کربلا میں موجود تھیں اور اپنی آنکھوں سے اپنے پیارے بیٹے کی جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔

جناب قاسم ابھی کم سن تھے کہ امام حسن(ع) کو زہر سے شہید کر دیا گيا جس کے بعد جناب رملہ نے اپنے بیٹے کو اسلام اور امامت کا باوفا سپاہی بنانے میں بھرپورکردار ادا کیا اور یہ انھی کی تربیت تھی کہ شب عاشور حضرت امام حسین ؑ کے موت کے متعلق سوال کے جواب میں جناب قاسم نے اسلام کے لیے موت کو شہد سے میٹھا قرار دیا ۔

جناب اّمِ فروا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاروانِ حسین(ع) کی ان بیبیوں میں شامل تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کو تیار کر کے میدانِ کربلا میں بھیجا اور شہادتوں کے بعد لُٹے پُٹے قافلے کے ساتھ کوفہ و شام کے بازاروں، درباروں اور زندانوں میں قیدی کی صورت پیش کی گئیں اور پھر رہائی کے بعد خالی گود لئے واپس مدینہ آ گئیں۔

دس محرم کا سورج طلوع ہوتے ہی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوا توخانوادۂ رسالت کا ہر جوان میدان میں جانے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے پر بے چین نظر آتا تھا، انہی میں جناب قاسم بھی شامل تھے۔ دستور کے مطابق جناب قاسم اپنی والدہ سے اجازت طلب کرنے آئے تو جناب اّمِ فروا آبدیدہ ہو گئیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ بیٹے کو میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتی تھیں بلکہ اس لئے کہ آج ہی تو وہ وقت نصیب ہوا تھا جب ان کا بیٹا حق کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والا تھا۔ جناب اّمِ فروا نے اس موقع پر اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا’’قاسم میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ تمہارے والد اور چچا میں کتنی محبت تھی۔ آج وہ وقت آ گیا ہے کہ تم اپنی محبت کا حق ادا کرو اور دشمن پر ثابت کر دو کہ تم خانوادۂ رسالت کے چشم وچراغ ہو اوردین بچانے کے لئے گردن بھی کٹوا سکتے ہو‘‘۔

کتاب روایات عزاء میں علامہ حافظ کفایت حسین جناب قاسم کی شہادت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

امام حسن علیہ السلام جب دنیا سے جارہے تھے اور زہر کی وجہ سے جگر کے ٹکڑے ہو کر نکل رہے تھے تو امام حسن ایک عالم کرب میں تھے۔ جب آخری وقت آیا تو آپ نے فرمایا: میرا قاسم کہاں ہے؟ ذرا بلا لو۔ اس وقت جنابِ قاسم کی عمر صرف تین سال کی تھی۔

جنابِ قاسم کو لایا گیا۔ تین سال کا بچہ، امام حسن نے سینے سے لگایا۔ اُس کا منہ چوما۔ بہت دیر تک سینے سے لگائے ہوئے روتے رہے۔ اب باپ کو جو روتے دیکھا تو یہ بچہ بھی چیخ چیخ کر رونے لگا۔ امام حسن نے خاموش کروایا اور فرمانے لگے:

بیٹا قاسم ! تم بہت چھوٹے ہو، اس لئے تم سے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ بس اتنی سی بات بھولنا نہیں، یہ تعویذ تمہارے بازو پر باندھے دیتا ہوں۔ جب کبھی تمہیں سب سے زیادہ سخت وقت دنیا میں معلوم ہو کہ اس سے زیادہ سخت وقت نہیں آسکتا تو ذرا اس کو کھول کر دیکھ لینا اور قاسم کی ماں سے کہنا کہ ذرا اس کا خیال رکھنا، یہ گم نہ ہونے پائے۔

تعویذ بندھا ہوا ہے، عاشور کا دن آگیا۔ اب بچے کی عمر ہے تیرہ سال۔ امام حسین اپنے بھائی امام حسن کے عاشق تھے۔ یہ عام کتابوں میں ہے کہ جب کبھی امام حسن اور امام حسین ایک جگہ بیٹھ جاتے تھے تو امام حسین بڑے بھائی کے سامنے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اتنی بات تھی اور اتنا احترام تھا۔

عاشور کا دن جب آیا تو یہ بچہ کئی دفعہ آیا، کئی بچوں کی لاشیں آگئیں۔ جنابِ زینب کے بچوں کی لاشیں حسین لے آئے اور بھی ایک دو بچوں کی لاشیں آگئیں۔ یہ بچہ گھر میں جاتا تھا اور پھر نکلتا تھا اور چچا کے پاس آتا تھا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ماں بھی کہتی تھیں کہ بیٹا ابھی تک اجازت نہیں لی۔ چنانچہ آتے تھے جنابِ قاسم اور عرض کرتے تھے ، چچا جان! مجھے بھی تو اجازت دیجئے۔ امام حسین بچے کی صورت دیکھتے تھے اور بھائی حسن یاد آجاتے تھے۔ امام حسین گلے سے لگا کر رو دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ بیٹا! ابھی ذرا ٹھہر جاؤ۔ جنابِ قاسم اس اُلجھن میں تھے کہ اب کیا کروں؟ چچا اجازت نہیں دیتے۔

ایک مرتبہ خیال آیا کہ بابا نے کہا تھا کہ جب دنیا میں سب سے زیادہ سخت وقت آجائے تو اس تعویذ کو دیکھ لینا۔ جنابِ قاسم ایک طرف چلے گئے۔ وہاں جاکر کھولا یہ تعویذ تو اس میں لکھا تھا کہ بیٹا قاسم ! جس دن تم تعویذ کھولو گے، وہ عاشورہ کا دن ہوگا۔ میرا بھائی چاروں طرف سے گھر چکا ہوگا۔ بیٹا! اگر میں موجود ہوتا تو اپنے بھائی پر سے اپنی جان قربان کر دیتا۔ میں نہ ہوں گا، تم ہوگے۔ میری عزت کا خیال رکھنا۔ جس وقت جنابِ قاسم نے یہ پڑھا تو اس خط کو لے کر آئے اور کہا کہ چچا جان! اب ذرا یہ خط تو دیکھ لیجئے، میں کیا کروں، میں کس طرح نہ جاؤں میدان میں؟ میرے بابا کی وصیت ہے جو آج مجھے معلوم ہو رہی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے وہ خط پڑھا۔ بھائی کی محبت یاد آگئی۔ قاسم کو سینے سے چمٹا لیا اور کافی دیر تک روتے رہے شبیر بلکہ امام بیہوش ہوکر گر پڑے۔

تمام واقعہ کربلا میں آپ کسی کتاب میں نہ دیکھیں گے کہ امام حسین علیہ السلام کسی کی رخصت کے وقت بیہوش ہوئے ہوں، یہاں تک کہ جنابِ علی اکبر گئے ہیں تو امام حسین نے خود سوار کیا ہے۔ خود اپنا عمامہ اُتار کر علی اکبر کے سرپر رکھا لیکن قاسم کی روانگی کے وقت بھائی حسن کو یاد کرتے ہوئے اتنا روئے کہ بیہوش ہوگئے۔

جب ہوش میں آئے تو جنابِ قاسم نے عرض کی کہ اب تو اجازت دیجئے۔ فرماتے ہیں کہ بیٹا جاؤ!اب میں کیا کروں، مگر اپنی ماں سے تو پوچھ لو۔آ ئے جنابِ قاسم دروازے میں کھڑی ہیں اُمّ فروہ دیکھتے ہی کہتی ہیں:بیٹا! اجازت مل گئی؟ قاسم نے کہا: اماں مل گئی۔ فرماتی ہیں:

اچھا بیٹا جاؤ اور ماں کو سرخرو کرو۔ جنابِ قاسم آئے اور امیرالموٴمنین علیہ السلام کے پوتے تھے، آخر دادِ شجاعت دی مگر چاروں طرف سے جب گھر گئے تو کسی کی تلوار لگی،کسی کا نیزہ لگا۔ گھوڑے سے جو گرے تو عزادارانِ اہلِ بیت ! اِدھر کے گھوڑے اُدھرگزر گئے اور اُدھر کے گھوڑے اِدھرگزر گئے۔ ارے تیرہ سال کا بچہ، اس کی ہڈیوں اور گوشت میں تھا کیا، مگر گرتے گرتے آواز دی، چچاجان! اب میں جارہا ہوں، ایک مرتبہ زیارت کروادیجئے۔

حسین روتے ہوئے آئے۔ یزیدیوں کو تلوار سے ہٹایا۔ ارے قاسم کی لاش پر پہنچے مگر قاسم کی ایسی حالت تھی کہ دنیا سے جاچکے تھے ۔ قاسم کواُٹھایا، منہ پر منہ رکھا، سینے کو سینے سے ملایا۔مگر تیرہ سال کے بچے کی لاش کی حالت یہ تھی کہ پاؤں زمین پر گھسٹتے ہوئے آرہے تھے، ہوا کیا؟ گھوڑوں نے وہ کیا جو کسی شہید کے ساتھ نہیں ہوا۔ جب خیمے میں پہنچے تو زینب انتظار میں تھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے قاسم کی لاش زمین پر لٹا دی۔ ماں خیمے کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں اور دیکھ رہی ہیں۔ جب تک حسین رہے روئی نہیں جب حسین باہر نکلے، ایک مرتبہ کہا:بیٹا قاسم !ارے دولہا بن کر آگئے، مجھے تم نے سرخرو کردیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: