امت کو اپنے اصولوں سے دستبردار ہونے پر مشتمل افکار سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ (اعلی دینی قیادت)

اعلی دینی قیادت نے امت کو اپنے اصولوں سے دستبردار ہونے پر مشتمل افکار سے ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس بات کا اظہار اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ الوارف کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (دام عزہ) نے 19 ربیع الاول 1439ھ بمطابق 8 دسمبر 2017 ء کو روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام میں نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ سے خطاب کے دوران کیا۔
علامہ صافی کا کہنا تھا:قرآن مجید نے بنی نوع انسان کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ کبھی ایک فرد کے بارے میں ہوتا ہے اور کبھی پوری امت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ جب کوئی انسان انفرادی طور پرگناہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسی انسان کو اس کی سزا دیتا ہے، اور جب کسی گناہ وغیرہ کا تعلق پوری امت کے ساتھ ہو اور پوری امت اس گناہ میں شامل ہو تو سزا بھی پوری امت کو ہی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض معاملات کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اہمیت دئیے گئے معاملہ میں نافرمانی کی سزا بھی اسی اہمیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالی انسان کو کوئی کام کرنے کا حکم دے اور انسان اس کام کو اللہ کی مرضی کے مطابق انجام نہ دے تو اللہ تعالی اس کے نتیجے میں جو رد عمل ظاہر کرتا ہے اس کا اثر انسانوں پر بہت ہی ڈراؤنی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے بعض امور کا سر انجام دینا پوری کی پوری امت سے طلب کیا ہے اور پوری امت کو ایک خاص جانب توجہ دینے کا حکم دیا ہے اور اگر کچھ لوگ امت کو اللہ کی طرف دعوت دیں اور خدائی احکام کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کریں لیکن اس کے باوجود مکمل طور پر اس پر عمل درآمد نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ پوری امت پر کوئی مصیبت نازل ہو جائے۔آج ہم مسلمان تمام انبیاء علیھم السلام کا احترام کرتے ہیں۔ اور قرآن مجید میں بہت سے عظیم انبیاء علیھم السلام کے بارے میں پڑھتے ہیں مثال کے طور پر ہم جناب نوح علیہ السلام کے واقعہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں بہت سے امور کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ جناب نوح علیہ السلام نے باقی انبیاء علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو خدا کی طرف دعوت دی قرآن ہمیں ان کے بارے میں مکمل تفاصیل تو نہیں بتاتا لیکن ان کی امت کے بارے میں ایک ایسے واقعہ کو بیان کرتا ہے کہ جو کسی دوسرے نبی(ع) کی امت کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ جناب نوح علیہ السلام کے ساتھ بہت سے واقعات پیش آئے جو لوگ جناب نوح علیہ السلام کی پیروی نہیں کرتے تھے وہ جناب نوح پر ایمان لانے والوں کو کم عقل اور پست شمار کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے:
(وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ)
ترجمہ:
مخالفین جناب نوح علیہ السلام کے ساتھ ایسا برتاو کرتے تھے کہ جو ظاہر کرتا تھا کہ ان مخالفین کی نظر میں جناب نوح علیہ السلام کی کوئی اہمیت اور قدر و قیمت نہیں ہے وہ لوگ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے تھے تاکہ جناب نوح علیہ السلام ان سے بات نہ کریں اور یہ برتاؤ فردی نہیں بلکہ اجتماعی تھا پوری کی پوری قوم نوح یہی رویہ اختیار کیے ہوئے تھی قرآن بتاتا ہے:
(يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ)
ترجمہ:
اس ساری صورت حال میں جناب نوح علیہ السلام اور ان کے پیروکار پوری معاشرے میں اجنبی کی صورت اختیار کر چکے تھے جناب نوح علیہ السلام اپنی امت سے بات کرتے لیکن وہ اسے سننا تک گوارا نہ کرتے اور بالآخر صورت حال اس نہج پہ آگئے کہ جناب نوح علیہ السلام کو یقین ہو گیا کہ اس قوم میں صرف کافر اور فاجر لوگ ہی باقی بچے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں بھی کافر و فاجر ہی ہوں گی لہٰذا جناب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے بد دعا کی اور اس بد دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخالفین کو جناب نوح کے نافرمان بیٹے سمیت غرق کر دیا اور صرف جناب نوح علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو نجات و کامیابی عطا کی۔
سب جانتے ہیں کہ جناب نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی جس کا معنی یہ ہے کہ اس تبلیغ کے عرصے کے دوران نسلیں تبدیل ہو گئیں یہ تبلیغ صرف ایک زمانے کی نسل کے ساتھ خاص نہ رہی لیکن نسلوں کے تبدیل ہونے کے باوجود بھی سوائے چند افراد کے کسی نے بھی جناب نوح علیہ السلام کی پکار پہ لبیک نہ کہا اور کافروں نے کافر نسلوں کو ہی جنم دیا۔ جب نسل در نسل لوگوں نے اپنے نبی(ع) کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نا بخشا اور جناب نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار لوگوں کے علاوہ سب کے سب غرق ہو گئے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: