روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے تعاون سے ’’آٹزم‘‘ کے بارے میں حدیقۃ المعرفہ فارم کی طرف سے علمی کانفرنس.....

عراق کے صوبہ بابل سے تعلق رکھنے والے حدیقۃ المعرفہ فارم نے آج روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے تعاون سے آٹزم کے بارے میں ایک علمی کانفرنس کا انعقاد کیا کہ جس میں روضہ مبارک کے شمالی امریکہ میں نمائندے ڈاکٹر شامل محسن ہادی کو گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

تلاوت قرآن مجید اور شھداء کے لیے فاتحہ خوانی اور قصائد کے بعد ڈاکٹر شامل نے آٹزم کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی اور حاضرین کو اس نفسیاتی کیفیت کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔

واضح رہے آٹزم یا آٹزم ڈس آرڈر ذہنی نشوو نما سے تعلق رکھنے والی ایک پیدائشی معذوری ہے جو بچے کی بولنے، لوگوں سے میل ملاپ کی صلاحیتوں اور اس کے رویہ کو متا ثر کرتی ہے۔ آٹزم کاتعلق کچھ طبی کیفیتوں سے تو ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے نہ تو ابھی تک آٹزم کی اصل وجہ اور نہ ہی اس کا کوئی حتمی علاج دریافت ہو سکا ہے
گزشتہ سالوں میں آٹزم میں بتدریج اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔تحقیق کے مطابق کینیڈا میں اوسطاً ۹۰ نو عمر لوگوں میں سے ایک آٹزم سے متاثر ہے۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو تعداد تقریباً چار گنا ہ زیادہ ہے
اگر کوئی بچہ آٹزم سے متاثر ہے تو اسے مندرجہ ذیل تین مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے
۔ بول چال میں دشواری ۔ یا تو بالکل بول نہیں سکنا، یہ ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط الفاظ میں مدعا بیان کرنا
۔ لوگوں سے میل ملاپ میں جھجھک اورلوگوں سے نظریں چارکرنے سے پر ہیز کرنا
۔ اپنے رویہ اور خیالات کے اظہار میں دشواری محسوس کرنا
آٹزم کی علامات
کچھ علامات جو آٹزم سے متاثر بچوں میں نظر آتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آٹزم سے متاثر بچہ:
۔ بالکل بول نہ سکتا ہو یا اتنی اچھی طرح اور اس ر وانی سے بات نہ کر سکتا ہے جتنی روانی سے اس کے ہم عمر بچے کرسکتے ہوں
۔ اپنے اطراف میں مو جود لوگوں کی موجودگی کے احساس سے محروم ہو
۔لوگوں سے نظریں چار کرنے سے کتراتا ہو
۔ کچھ آلات یا اشیا مثلاً بجلی کے سوئچ، پنکھے اور گھومنے والے پرزے یا کھلوں کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ
۔ کھیلتے وقت کسی فرضی کردار سے باہمی عدمِ تعاون
۔ دیگر بچوں کے ساتھ کھیل کو د میں نہ تو خود شریک ہو نا اور نہ ہی انہیں اپنے کھیل میں شریک کرنا
۔ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی نہ تو کوشش کرنا اور نہ ہی چیزوں کی طرف اشارہ کرنا
۔ بار بار اپنی ہاتھوں اور انگلیوں کا سے غیر معمولی حرکات کامظاہرہ کرنا
۔ کسی سنی ہوئی بات یا جملے کو بے وجہ دہراتے رہنا
۔ کسی خاص آواز یا خوشبو پر ردِ عمل کا اظہار کرنا
۔ بہت سے ذائقوں کو نا پسند کرنا
۔ خود اپنی حفاظت نہ کرسکنا
۔ نہ تو اپنے کام خود کر سکنا اور نہ ہی کسی سے مد د مانگنا
۔ گرمی اور سردی کے احساس سے عاری ہونا
۔ معمول کے خلاف کسی بھی بات پر ناخوشی کا اظہار کرنا
آٹزم سے متا ثر بچے بعض غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ان کی یادداشت بہت اچھی ہو سکتی ہے، وہ حساب یا ریاضی میں مہارت رکھ سکتے ہیں یا گانے بجانے اور موسیقی کے آلات استعمال کرنے میں اپنے ہم عمر بچوں سے بہت زیادہ بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

جبکہ اس سلسلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے:

خود تسکینی کی کیفیت دراصل کوئی مرض نہیں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی‘

آٹزم پر بہت بار بات چیت کی جاتی ہے مگر اسے کم ہی سمجھا گیا ہے کہ حقیقت میں آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت کسے کہا جاتا ہے؟

اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔

آپ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کے ناموں سے تو واقف ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں آٹزم تھا۔ آٹزم ایک موروثی کیفیت ہے جو نسلوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔

خود تسکینی کی کیفیت دراصل کوئی مرض نہیں ہے یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ نیز، اُن میں حواس خمسہ یعنی محسوس کرنا، سماعت کی حس یا تو بہت حساس ہوتی ہیں یا یہ پھر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ نے 2 اپریل کو آٹزم کے دن کے طور پر مخصوص کیا ہے۔ اس دن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نےکہا ہے کہ،'ابتدائی مداخلت آٹزم والے افراد کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔'

'اب وقت آ گیا ہے کہ ہم معاشرے میں موجود ایسے لوگوں کے لیے کام کریں اور متاثرہ افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور انھیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق مواقع فراہم کریں۔ ساتھ ہی، اُنھیں ان کی صلاحیتوں کا احساس دلائیں اور انھیں جینے کا حوصلہ دیں، تاکہ وہ بھی معاشرے کا ایک کارآمد حصہ بن سکیں ۔'

برطانوی محکمہٴصحت کی نئی ریسرچ کے مطابق، برطانیہ میں ہر 100 میں سے ایک بالغ خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلاہے۔ جبکہ، امریکہ کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اسکول جانے والے 50 میں سے ایک بچہ آٹزم میں مبتلا ہے۔

آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) کو آٹزم کی ملتی جلتی کیفیتوں کا مجموعہ ہے، جن میں آٹزم، غیر مخصوص آٹزم اور اسپرجرز سینڈروم کا نام شامل ہے۔ اگر کوئی فرد آٹزم میں مبتلا ہو تو عام طور پر اپنی نشوونما کے دوران اسے تین میدانوں میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

بات چیت کرنےاور زبان سمجھنےاور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے میں دشواری اور اپنے روئیے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری۔ آٹزم کی تمام کیفیات میں دشواریاں مشترک ہوتی ہیں۔ لیکن، ان کی یہ نفسیاتی معذوری ان پر بالکل مختلف طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ افراد اپنی زندگی خود مختارانہ طریقے سے گذارنے کے اہل ہوتے ہیں، جبکہ بعض کو ساری زندگی مخصوص تعاون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

حال ہی میں آٹزم پر ایک تحقیق'جرنل جاما سائیکا ٹری' میں شائع ہوئی ہے جس میں برطانیہ، سویڈن اور آسٹریلیا کے تحقیق دان شامل تھے۔ اُن کے مطابق، آٹزم ایک موروثی خطرہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔

اس تحقیق میں میں 6000 افراد اور خاندانوں کے نفسیاتی ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا جو سنہ1932 سے اب تک آٹزم کے ساتھ سویڈن میں پیدا ہوئے ہیں۔

اسی تعداد کو 31000 ایسے افراد کے ساتھ جانچا گیا، جن کو آٹزم نہیں تھا جو اسی دور میں پیدا ہوئے تھے۔

پھر دونوں جانب یہ موازنہ کیا گیا کہ دادا یا نانا کس عمر میں باپ بنے تھے اور ان کی نفسیاتی معلومات بھی جمع کی گئیں۔

تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ آٹزم کا خطرہ ان بچوں میں زیادہ تھا جن کے دادا یا نانا 50 برس یا اس سے زیادہ عمر میں باپ بنے تھے۔

کنگ کالج لندن سے تعلق رکھنے والے معاون تحقیق دان ایوی کے مطابق، انسانی نفسیات کے حوالے ایسا پہلی بار بتایا جارہا ہے کہ دادا اور نانا کی زندگی گزارنے کا انداز آپ پر اثر انداز ہو سکتا ہے'۔

اس تحقیق کے مطابق جینس میں موجود ابنارمل سیلز آپ کے بیٹے یا بیٹی کو تو ضرر نہیں پہنچاتے، لیکن آنے والی نسلوں میں آٹزم کے خطرات پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

دوسری جانب، برطانیہ میں آٹزم پیدا کرنے والے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیق راڈ کلف ہسپتال آکسفورڈ میں کی جارہی ہے۔ لیکن، دماغ کا عطیہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ تحقیق تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔'برطانوی برین بنک آف آٹزم' گزشتہ چار برس سے دماغ کے عطیے کی اپیل کر رہا ہے جنھیں اپنی تحقیق کے لیے صحت مند دماغ کی ضرورت ہے۔ لیکن، لوگ اعضا عطیہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد کسی کی جان بچانا ہوتا ہے مگر تحقیق کے لیے جسم کا اہم ترین عضو عطیہ کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔

آٹزم میں مبتلا بچے جب نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں دنیا ایک جنجال معلوم ہوتی ہے انھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ کیوں خوش ہوتے ہیں یا وہ کیسے پہلی ہی ملاقات میں آپس میں اتنا گھل مل جاتے ہیں۔

آٹزم کی اسپرجرز سینڈروم رکھنے والےبچے عموماً ذہین یا بے حد ذہین ہوتے ہیں۔ جنھیں رنگوں، اشکال اور ریاضی میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اسکول اور کالج میں ایک ہونہار طالب علم ہو سکتے ہیں یہ زیادہ تر اپنے پسندیدہ موضوعات پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایک ہی جیسے مشاغل کو روزمرہ کرنے سے بور نہیں ہوتے، اور اپنے پسندیدہ موضوع پر ضرورت سے زیادہ معلو مات اکھٹی کرلیتے ہیں۔ اکثر ان میں یاسیت اور اداسی پیدا ہوجاتی ہے، کیونکہ انھیں اپنے محسوسات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔

گو کہ اب تک اس نفسیاتی معذوری کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا، تاہم آٹزم سے آگاہی کے اداروں اور سرکاری اسپتالوں میں آٹزم سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہے، جس سے بچے کی تربیت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ایسے بچوں سے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کرنا اور چھوٹے چھوٹے فقروں میں بات کرنا ان کے لیے مددگار ہو سکتا ہے، جبکہ کسی بھی سوال کرنے کے بعد جواب کے لیے انھیں وقت دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: