3شعبان: امام حسین(ع) کے جشن میلاد کا پُر مسرت دن

روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے تمام خدام اور خاص طور پر الکفیل نیٹ ورک کے سب اراکین کی جانب سے پوری دنیا کو امام حسین علیہ السلام کا جشن میلاد مبارک ہو۔

حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھما السلام کے فرزند، رسول خدا(ص) کے دوسرے نواسے، آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے تیسرے امام، اصحاب کساء میں سے پانچویں فرد اور جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

ولادت با سعادت: حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت 3شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ رسول خدا (ص) نے آپ کانام حسین رکھا۔

اولاد: حضرت امام حسین علیہ السلام کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

(1): علی اکبر کہ جن کی والدہ جناب لیلیٰ بنت ابی مرۃ ثقفی ہیں ۔

(2): علی(اوسط)، (3): علی(امام زین العابدین علیہ السلام)۔ ان دونوں کی والدہ جناب شاہ زنان بنت کسریٰ ہیں۔

(4): محمد، (5): جعفر۔ ان دونوں کی والدہ جناب قضاعیہ ہیں۔

(6): عبد اللہ (کہ جنہیں ہندوستان اور پاکستان میں جناب علی اصغر کہا جاتا ہے)، (7): سکینہ۔ ان دونوں کی والدہ جناب رباب بنت امرئ القیس ہیں۔

(8): فاطمہ کہ جن کی والدہ جناب ام اسحاق تمیمیہ ہیں۔

(9): زینب

حضرت امام حسین علیہ السلام کی نسل ان کے بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام سے چلی۔

شہادت: امام حسین علیہ السلام دس محرم 61ہجری کو کربلا میں شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر56 سال اور چند مہینے تھی۔آپ نے اپنی زندگی کے چھ سال رسول خدا(ص) کے ساتھ گزارے، اپنے والد حضرت علی(ع) کے ساتھ 36 سال رہے، اپنے بھائی امام حسن(ع) کے ساتھ 46 سال رہے اور اپنے بھائی کی شہادت کے بعد دس سال تک زندہ رہے۔

امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟


سید محسن امینی اپنی کتاب اعیان الشیعہ کی چوتھی جلد میں کہتے ہیں: امام حسین علیہ السلام حسب و نسب کے حوالے سے سب سے افضل انسان ہیں، امام حسین علیہ السلام کے نانا رسول خدا سید الانبیاء حضرت محمد(ص) ہیں، آپ کے والد امیر المومنین سید الوصیین حضرت علی بن ابی طالب(ع) ہیں، آپ کی والدہ سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہراء(س) ہیں، آپ کے بھائی امت مسلمہ کے دوسرے امام برحق حضرت امام حسن مجتبی(ع) ہیں، آپ کے چچا ملائکہ کے ساتھ جنت میں پرواز کرنے والے جناب جعفر طیار(ع) ہیں، آپ کے بابا کے چچا سید الشہداء جناب حمزہ (ع) ہیں، آپ کی نانی اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون حضرت خدیجہ(س) ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اغراض کی خاطر جہاد کیا اور وہ کام کر دکھایا کہ جو ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا اور نہ ان کے بعد کوئی کر سکے گا، امام حسین علیہ السلام نے اپنی جان، اولاد اور مال کو دین کے احیاء و حفاظت کے لیے قربان کر دیا، امام حسین علیہ السلام نے اپنے لیے کم قیمت اور گھٹیا دنیا کی بجائے موت کو ترجیح دی، ذلت کی زندگی کی جگہ عزت کی موت کو منتخب کیا، گھٹیا لوگوں کی اطاعت کی بجائے عزت داروں کی طرح مرنے کو اختیار کیا، امام حسین علیہ السلام نے ظلم و ستم کو قبول کرنے سے انکار اور عزت نفس، شجاعت، بہادری، صبر اور ثابت قدمی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جس سے عقل حیران رہ جاتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت کا حق ہے کہ ہر سال بلکہ سارا سال ان کی یاد منائی جائے اور ان پہ خون کے آنسو آنکھوں سے بہائے جائیں۔ کائنات میں کون سا ایسافرد ہے کہ جس نے وہ کام کیا ہے کہ جو امام حسین علیہ السلام نے کر دکھایا ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسی(ع) نے عوام کو بچانے کی خاطر سولی پہ چڑھنے کو قبول کیا لیکن اس طرف آپ امام حسین(ع) کی قربانیوں کو بھی تو دیکھیں بقول عیسائیوں کے حضرت عیسی(ع) نے صرف صرف اپنے آپ کو قربان کیا لیکن ادھر امام حسین(ع) نے اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو، اپنے دودھ پیتے بچے کو ، اپنے بھائیوں کو، اپنے بھائیوں کی اولاد کو، اپنے چچا زاد بھائیوں کو.... قتل ہونے، اپنے مال کو لوٹے جانے اور اپنی خواتین اور بچوں کو قیدی بنائے جانے کے لیے پیش کر دیا.....

امام حسین علیہ السلام ہر ایک کے نزدیک عظیم اور محترم ہیں حتی کہ امام حسین علیہ السلام کے بابا حضرت علی علیہ السلام کے دشمن خوارج بھی امام حسین(ع) کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہر سال دس محرم کو ان کی یاد میں غم مناتے ہیں۔ اگر مسلمان انصاف سے کام لیں تو وہ امام حسین(ع) کی یاد منانے کے سلسلہ میں شیعوں کی مخالفت نہ کریں۔ کیا امام حسین(ع) فرانس کے جان دارک (Joan of Arc)سے بھی کمتر ہیں کہ جس کی یاد میں ہر سال فرانس کے رہنے والے بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں؟ کیا جان دارک نے فرانس کے لیے وہ کچھ کیا ہے کہ جو امام حسین(ع) نے اپنے نانا کی امت کے لیے کیا ہے؟

امام حسین(ع) نے حریت، آزادی، استقلال، ظلم کے خلاف قیام، ناانصافی کی مخالفت، عزت و حقوق کے مطالبے اور بلند مقاصد کے راستے میں موت سے نہ گھبرانے کی ایسی نہج قائم کی ہے کہ جس کی نظیر رہتی دنیا تک ناپید نظر آتی ہے۔

اگر کوئی مسلمان اجر و ثواب کا خواہش مند ہے تو وہ امام حسین(ع) کے غم میں رونے اور اظہارِ حزن کے ذریعے قیامت کے دن ثواب حاصل کر سکتا ہے کیونکہ امام حسین(ع) کے غم میں رونا رسول خدا(ص) اور ان کے اصحاب کی سنت ہے نبی کریم(ص) نے خود اپنے اصحاب کو امام حسین(ع) کے شہید ہونے کی غیبی خبر دی تھی اور سانحہ کربلا کے رونما ہونے سے پہلے رسول اکرم(ص) اپنے نواسے کے مصائب پہ روئے تھے اور ان کے ساتھ ان کے اصحاب نے بھی امام حسین(ع) کے مصائب پہ گریہ کیا تھا کہ جن میں حضرب ابو بکر اور حضرت عمر بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں ماوردی شافعی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں متعدد روایات کو لکھا ہے۔

آئمہ اہل بیت علیھم السلام نے اپنے شیعوں اور پیروکاروں کو اس المناک سانحہ کی ہر سال یاد منانے، امام حسین(ع) کے مصائب پہ غم و حزن کا اظہار کرنے اور مجالسِ عزاء برپا کرنے کا حکم دیا ہے بے شک آئمہ اہل بیت علیھم السلام ہی سب سے بہترین نمونہ عمل ہیں اور سنتِ نبوی کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر ذریعہ ہیں کیونکہ آئمہ اہل بیت ہی حدیثِ ثقلین کا مصداق ہیں کہ جن سے تمسک کے بعد کوئی مسلمان گمراہ نہیں ہو سکتا، آئمہ اہل بیت علیھم السلام ہی وہ دروازہ ہیں کہ جن کو رسول خدا(ص) نے بابِ حطة قرار دیا اور فرمایا کہ اس دروازے سے جو گزرے گا وہ امان میں رہے گا، آئمہ اہل علیھم السلام ہی مدینة العلم میں داخل ہونے کا راستہ اور دروازہ ہیں اور دروازے سے ہی داخل ہو کر شہر علم میں پہنچنا ممکن ہے رسول خدا(ص) کا فرمان ہے میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروزہ ہے۔

سید محسن امین کہتے ہیں کہ سید علی جلال مصری نے امام حسین(ع) کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی ہے کہ جس میں سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں :

حضرت امام ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام رسول خدا(ص) کے نواسے اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بیٹے ہیں، امام حسین علیہ السلام نے بیتِ نبوت میں پرورش پائی اور پروان چڑھے، امام حسین علیہ السلام اشرف وافضل ترین نسب اور کامل ترین شخصیت کے مالک ہیں اور بلند ہمت وحوصلہ، شجاعت وسخاوت کی انتہا، اسرارِعلم، فصاحتِ لسان، نصرتِ حق، نہی عن المنکر، ظلم کے خلاف جہاد، تواضع، عزتِ نفس، عدل وانصاف، صبر، بردباری، عفت وپاکدامنی، تقویٰ وپرہیز گاری، فطرتِ سلیم، جمالِ صورت، عقل ودانائی، قوتِ جسم، کثرتِ عبادت اورنماز، روزہ، حج، جہاد اور احسان ونیکی.... وغیرہ پر مشتمل فضائل ومناقب، اخلاقی بلندیوں اور اعمالِ خیر وصفاتِ حمیدہ کا مجموعہ ہیں۔

جب بھی امام حسین علیہ السلام نے مدینہ یا کسی دوسرے شہر میں قیام کیا تو انھوں نے اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہچایا، اپنے کریم اخلاق کے ذریعے لوگوں کو تہذیب وتمدن سے آگاہ کیا، آسان وعام فہم اور موقع محل کے مطابق کی گئی گفتگو کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی، اپنے مال کے ذریعے سخاوت کے دریا جاری کیے، فقراء اور غریب لوگوں کے ساتھ انکساری سے پیش آئے، حکمرانوں کے ہاں عظیم المرتبت قرار پائے، یتیموں ، مساکین اور ضرورت مندوں تک ہمیشہ صدقہ وخیرات پہنچائی، مظلوموں کے لیے انصاف طلب کیا، عبادت میں مشغول رہے، پچیس 25 مرتبہ مدینہ سے مکہ تک حج کا سفر پیدل طے کیا، امام حسین علیہ السلام اپنے زمانے میں ہدایت کے علمبردار اور زمین کا نور تھے، امام حسین علیہ السلام کی زندگی کے حوالے سے معلومات و روایات ہدایت کے متلاشی کو امام علیہ السلام کے محاسن کے نور سے روشنی وہدایت دیتی ہیں، ان کے فضل وکمال کے آثار رک کر سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے جن مصائب وآلام کا اُس منحوس زمانے میں سامنا کیا ان مصائب کی یاد منانا امت کے لیے بہت ہی مفید ہے، اسی طرح کربلا میں اجڑنے سے پہلے کےزمانے میں امام حسین علیہ السلام کی عزت واحترام اور مآثر کا تذکرہ اور شدید ترین مصائب اور قتل ہونے کے بارے میں گفتگو امت کے لیے فائدہ مند ہے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب کی گفتگو ہر مسلمان کو غم زدہ اور حزین کر دیتی ہے اور ہر عاقل کو غم وغصہ کی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد منانا اپنے اندر بہت سے فوائد کو سموئے ہوئے ہے، امام حسین علیہ السلام کی شہادت عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے دانتوں کو پیسنے اور عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے اور بہادروں کے لیے امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک نمونہ عمل ہے، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ دنیا کی کم ظرفی نے کس طرح سے امام حسین علیہ السلام کو زندگی کی جگہ موت کو ترجیح دینے پر مجبور کر دیا حالانکہ امام حسین علیہ السلام اپنے زمانے کے سب سے عظیم ترین فرد تھے، مشرق ومغرب میں ان کی مانند کوئی بھی نہ تھا۔

ایک جھوٹے سے گروہ اور ابن زیاد کی بہت بڑی سازوسامان سے لیس فوج کے درمیان کربلا میں ہونے والے معرکے کے دوران امام حسین علیہ السلام کی ثابت قدمی اور بغیر کسی خوف کے شجاعت کا مظاہرہ عقلوں کو حیران کر دیتا ہے، جس طرح سے پوری تاریخِ بشریت میں امام حسین علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کی مثال موجود نہیں ہے، اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں جیسے بدترین اور گھٹیا لوگوں کا بھی انسانی تاریخ میں وجود نہیں ملتا، امام حسین علیہ السلام کا کٹا ہوا سر جب ابن مرجانہ (ابن زیاد) کے سامنے رکھا گیا تو اس نے امام حسین علیہ السلام کے دانتوں اور ہونٹوں پر چھڑی سے مارنا شروع کردیا حالانکہ یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں مخلوقات کے سیدوسردار حضرت محمد (ص) بوسہ لیا کرتے تھے اور یہ ایسا واقعہ ہے ک جس سے بدتر واقعہ انسانیت کی ابتدا سے قیامت تک نہ تو کسی نے سنا ہے اور نہ کوئی سنے گا۔

خدا کے عدل کی نشانیوں اور آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس طرح سے امام حسین علیہ السلام کو دس محرم کے دن قتل کیا گیا اسی طرح سے عبید اللہ ابن زیاد بھی دس محرم کو ہی قتل ہوا، امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد ان کے سرِ اقدس کو ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا اسی طرح سے ابن زیاد کو قتل کرنے کے بعد اس کے سر کو امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا۔ امام حسین علیہ السلام کو قتل کروانے کے بعد یزید کو صرف تین یا تین سے بھی کم سالوں کی زندگی کی مہلت ملی، اس سے بڑھ کر کیا موعظہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص بھی امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے اس کا بدلہ لیا لہذا قاتلانِ حسین علیہ السلام میں سے ہر شخص یا تو قتل کر دیا گیا یا اسے مصیبت وعذاب نے گھیر لیا۔

اے اہلِ عقل اس سے بڑھ کر کیا عبرت ہو سکتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر تو ایک معظم ومحترم حرم ہے جبکہ یزید بن معاویہ کی قبر ایک کوڑادان ہے؟

نبی کریم(ص) کے اہل بیت کو شامل خدا کی عنایت تو دیکھیں کہ امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف ایک بیمار اور قریب المرگ بیٹے کے علاوہ سب کے سب سانحہ کربلا میں قتل کر دیے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی ایک بیٹے کے ذریعے ہی امام حسین علیہ السلام کی نسل کو باقی رکھا اور ان کی تعداد بڑھتی ہی گئی اور ان کی شان واحترام میں اضافہ ہی ہوتا رہا، جبکہ جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا تھا ان کا نام ونشان بھی زمین پر موجود نہیں۔

اگر امام حسین علیہ السلام کو خلافت وحکومت ملتی تو یہ امام حسین علیہ السلام کے جہاد، اخلاق اور طرز ِحکمرانی کے حوالے سے امت کے لیے بہت زیادہ بہتر اور اچھا ہوتا، رسول خدا(ص) کے پاک وطاہر نواسے کے درمیان اور ظالم وشراب خور اور بندروں سے کھیلنے والے یزید کے درمیان کوئی موازنہ وقیاس ہی نہیں ہے، فاسق وفاجر کیا امامِ عادل کے برابر ہو سکتا ہے ؟..... سونے اور مٹی میں تقابل ہی کیا ہے؟..... لیکن شاید یہ حکمت ِ الہی کا تقاضہ تھا تمام واقعات وسانحات اس کے برعکس ہوئے ، جب اللہ کسی کام کا ارادہ کرلے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا ، یہ بھی حکمتِ الہی کا ہی تقاضہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے جہاد کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا تاکہ جب بھی لوگ ظلم میں گرفتار ہو جائیں تو وہ اس ہستی کو یاد کریں کہ جس نے امت کی خدمت کے لیے اپنی جان قربان کی۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: