علامہ صافی: دفاع کفائی کا فتوی عسکری، دینی اور قائدانا فتوی تھا ملک کو بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا....

چودھویں سالانہ ربیع الشھادۃ سیمینار کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی(دام عزہ) نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

میں اپنے عزیز مہمانوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے یہاں حاضر ہو کر ہمیں سعادت و خوشی بخشی۔

اس عزیز ترین موقع کو ہمارے بھائیوں نے ایک انتہائی اہم موضوع کو قریب سے دیکھنے میں گزارا ہے اور وہ موضوع اعلیٰ دینی قیادت کی طرف سے صادر ہونے والا دفاع کفائی کا فتوی ہے اس سیمینار کے دوران خصوصی طور پر اس فتوی کا ذکر رہا اور اس سیمینار کے موضوع سے لے کر اس کی ہر تقریب میں یہ فتوی چھایا رہا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فتوی مطالعہ اور تحقیق کا حقدار ہے۔

بلا شبہ اس فتوی کو بہت سے فقہی، اجتماعی، عسکری، سیاسی اور اقتصادی زاویوں سے پڑھا جا سکتا ہے اس فتوی کو سمجھنے کے لیے اس کے صدور سے پہلے کے حالات اور واقعات کا مطالعہ بہت ضروری ہے اگر ہم کسی واقعہ سے پہلے کے حالات کا جائزہ نہ لیں تو اس واقعہ کا بیان اور اس کی صورت تاریخی حوالے سے نقص کا شکار رہتی ہے۔ اعلیٰ دینی قیادت نے اپنی نصیحتوں اور بیانات میں بارہا عسکری ادارے کی صحیح بنیادوں پر تعمیر نہ کرنے اور دیگر اداروں میں کرپشن کی موجودگی سے بارہا خبردار کیا۔ اگر ہم فتوی کے صدور سے پہلے کی مطالعہ کریں تو ہمیں اس فتوی کے صدور کے وقت اور اس کے اثرات کی اہمیت کا ادراک ہو جائے گا۔

ماضی میں بھی جب مرجعیت نے تمباکو نوشی کی حرمت یا 1920 کے انقلاب کا فتوی دیا تو اس وقت فتوی سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ مرجعیت کے پاس اس فتوی کے علاوہ مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

علامہ صافی نے مزید کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اس فتوی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا تو اس بات کو سمجھنے کے لیے فتوی سے پہلے کے حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اعلیٰ دینی قیادت کا دفاع کفائی کا فتوی عسکری، دینی اور قائدانا فتوی تھا ملک کو بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اس ملک میں پہلے بھی بہت سے نازک مراحل آئے لیکن اعلیٰ دینی قیادت نے اس قسم کا کوئی فتوی صادر نہ کیا کیونکہ اس وقت کسی نہ کسی صورت میں مسئلہ کے حل کے لیے دیگر راستے موجود تھے لیکن داعش کا معاملہ ایسا تھا کہ جس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سوائے دفاع کفائی کے فتوی کے کوئی راستہ موجود نہ تھا اگر یہ فتوی نہ ہوتا تو حالات بالکل مختلف ہوتے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: