حضرت علی (ع) کی وصیت، مخفیانہ تدفین اور اس کے اسباب.....

جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ابن ملجم ملعون ضربت لگا چکا تو آپ(ع) نے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو ایک وصیت فرمائی اگرچہ ظاہری طور پر یہ وصیت آپ(ع) نے اپنے دونوں بیٹوں کو کی ہے لیکن اس وصیت پہ عمل کرنا تمام شیعان امیر المومنین پہ واجب ہے اس وصیت میں آپ(ع) نے فرمایا:

میں تم دونوں کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

اور دیکہو دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل کیوں نہ ہو۔
اور دنیا کی جس چیز سے تم کو روک لیاجائے اس پر افسوس نہ کرنا۔
اور جو بھی کہنا حق کہنا۔
اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔
ظالم کے مخالف اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
میں تم دونوں کو اوربقیہ اپنی تمام اولادوں اور، اپنے تمام اهل وعیال کواور ان تمام افراد کو کہ جن تک یہ میرانوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔
اورباہمی تعلقات کو استوار رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے هوےسنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔
خدارا خدارا یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا که کہیں ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجود گی میں وه ضائع نہ هو جائیں
خدارا خدا را . اپنے ہمسایوں کا خیال رکہنا کہ ان کے بارے میں تمہارے نبی نے وصیت کی اور اتنی شدیدتاکید فرمائی ہےکہ یہ گمان ہونے لگا تها کہ کہیں آپ ؐاُنھیں بھی میراث پانے والوں میں سے قرار نہ دے دیں
خدارا خدارا قرآن کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔
خدارا خدارا نماز کی ادائیگی میں پابند رهنا اس لئے کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
خدارا خدارا اپنے رب کے گھر کا خیال رکھنا، جب تک کہ تم زندہ ہو اسے خالی نہ چھوڑنا۔
کیونکہ اگر اسے خالی چھوڑ دیا توپھر عذاب سےمہلت نہ ملے گی۔
خدارا خدارا راہِ خدا میں اپنی جان. مال.اور زبان کے ذریعے جہاد سے دریغ نہ کرنا
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اورخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تب بھی وہ قبول نہ ہوگی۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
دیکھو! میرےقتل کے بدلے صرف میرے قاتل ہی قتل کیاجائے۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس کےسر پر ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
نہج البلاغہ مکتوب (47) وصیت ترجمہ مرحوم مفتی جعفر حسین

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت اور مخفیانہ تدفین:
سن40 ہجری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو ابن ملجم کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ اس شب حضرت علی(ع) اپنی بیٹی کے گھر مہمان تھے اور وہیں سے ہی سحری کے وقت نماز صبح کی ادائیگی کے لیے مسجد کوفہ چلے گئے۔ جب نماز صبح کے دوران حضرت علی(ع) سجده میں گئے تو ابن ملجم نے آپ کے سر مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہوا آپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئی۔ اس حالت میں حضرت علی(ع) نے فرمایا: فزت و رب الکعبهکعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمہیں دوباره اٹھائیں گے۔

حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے اور زہر کا اثر جسم میں پھیل جانے کے سبب 21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی۔ حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو وصیت کے مطابق مخفی طور پر نجف میں دفن کر دیا اور خاص افراد کے علاوہ کسی کو بھی قبر کی جگہ کے بارے میں خبر نہ ہونے دی۔

حضرت علی (ع)کو مخفی دفن کرنے کے اسباب:

اسلام کے دفاع اور اسلام کے ارکان کو مضبوط کرنے کے لیے حضرت علی علیہ السلام نے کفر کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں قریش اور کافر قبائل کے بیشمار سرداروں اور شہرہ آفاق بہادروں کو واصل جہنم کیا اور کفر و اسلام کے درمیان ہونے والی جنگوں میں سے ہر ایک میں شجاعت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ جو رہتی دنیا تک کے لیے شجاعت کا اعلی نمونہ بن گئے۔

لیکن جہاں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شجاعت نے اسلام کو کافروں اور مشرکوں کی سازشوں سے محفوظ کیا وہاں دوسری طرف کافروں اور منافقین کے دلوں کو حقد اور بغض و حسد سے بھی بھر دیا اور اسی حقد اور بغض و عناد کی وجہ سے مقتولین کے ورثاء ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حضرت علی علیہ السلام کے دشمن بن گئے اور دل میں بھڑکنے والی انتقام کی آگ کو بجھانے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔

بنو امیہ اور بنو عباس کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام سے بغض رکھنے اور اس بغض کی وجہ سے اہل بیت رسول اور حضرت علی علیہ السلام کی اولاد پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے واقعات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں اور اسی سبب سے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی قبر کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا تھا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ ان کی زندگی کے بعد حکومت جگر خور کے بیٹے اور بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور بنو امیہ کے لوگ اپنے دلوں میں بھڑکتی ہوئی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حضرت علی علیہ السلام کی میت کو قبر سے نکال کر لاشے کی بے حرمتی کریں گے لہذا حضرت علی علیہ السلام نے بنو امیہ، اس کے اعوان و انصار، خوارج اور ان کے ہم مثل لوگوں کے شر سے بچنے کے لیے اپنی قبر کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا۔)کتاب فرحة الغری ص25)

سید ابن طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس کے پوشیدہ رکھنے میں بہت سے فوائد تھے کہ جن کی تفاصیل سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔

ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

اے علی! کوفہ کا شرف تیری قبر کی بدولت سے ہے …

تو حضرت علی(ع) نے فرمایا: اے اللہ کے رسول(ص): کیا میں عراق کے شہر کوفہ میں دفن ہوں گا؟

تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہاں تم اس کے پشت میں دفن ہو گے(فرحة الغری ص37/38)

حجاج بن یوسف جب بنو امیہ کی طرف سے گورنر بنا تو اس نے حضرت علی علیہ السلام کے لاشہ کی بے حرمتی کرنے کے لیے کوفہ، نجف اور اس کے گردو نواح میں موجود تین ہزار قبروں کو کھدوایا لیکن اسے حضرت علی علیہ السلام کی میت نہ ملی۔ (کتاب منتخب التواریخ)

انہی حالات کے پیش نظر حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قبر اقدس کے بارے میں آئمہ اطہار علیہم السلام اور خاص شیعوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: