داعش کے خلاف جہاد کفائی اور دفاع کے فتوی کی یاد میں تیسرے سالانہ ’’فتوی دفاع‘‘ سیمینار کا آغاز....

نجف اشرف میں موجود اعلیٰ دینی قیادت کی طرف سے داعش کے خلاف جہاد کفائی اور دفاع کے فتوی کی یاد میں تیسرے سالانہ’’فتوی دفاع‘‘ سیمینار کی تقریبات کا آغاز اس عنوان کے تحت روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام میں ہوا’’النصرُ منكم ولكم وإليكم وأنتم أهلُه‘‘

روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کی طرف سے منعقد ہونے والے اس سیمینار کی افتتاحی تقریب روضہ مبارک کے امام حسن (ع) ہال میں منعقد ہوئی کہ جس میں بڑی تعداد میں سیاسی، سماجی ،عسکری اور دینی شخصیات نے شرکت کی۔

افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید، شھداء کے لیے فاتحہ خوانی اور عراق کے قومی ترانہ سے ہو۔

سب سے پہلے روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی(دامت برکاتہ) نے حاضرین سے خطاب کیا۔ علامہ صافی نے اپنے خطاب میں کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ کو چند الفاظ کے ذریعے مختصر نہیں کیا جا سکتا اور اسی طرح سے اس چیز کا لکھنا بھی نا ممکن ہے جس کے اصل راز کو ہم نہ جانتے ہوں۔

عراق کی تاریخ مشکلات سے بھری ہوئی ہے عراق کی تاریخ کے جاننے والے اور اس میں گہری نظر رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ یہ ملک اپنے محل وقوع کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے اس نے نجانے کون کون سی مشکلات کا سامنا کیا ہے ہم ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے حقائق اور آنکھوں دیکھے واقعات کو بیان کریں۔

جب ہم نے تین سال پہلے اس سیمینار کا آغاز کیا تھا تو ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ حالات کس طرف جائیں گے۔

لیکن ہمیں اس بات کا باخوبی علم تھا کہ یہ قوم ضرور فتح حاصل کرے گی کیونکہ اس قوم کا قضیہ حقیقی اور صحیح بنیادوں پر قائم تھا اور تقریبا ہزار سالہ تاریخ کا حامل یہ قضیہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہوا تھا کہ جس کا اپنے راستے کو مکمل کرنا اور کسی بھی حد پہ نہ رکنا یقینی تھا۔

اس وقت شہید گر رہے تھے خون بہہ رہا تھا سر زمین کے کچھ حصے غاصبوں کے ہاتھوں میں تھے لیکن امید بالکل واضح تھی کہ اس معرکہ کا اختتام فتح و نصرت پہ ہی ہو گا۔

جو شخص واضح عقیدہ کے مطابق جنگ لڑتا ہے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا کیونکہ اس کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ فتح حاصل کرے گا یا خدا کی راہ میں قتل ہو جائے گا اور دونوں ہی صورتوں میں شخصی و انفرادی سطح پر فتح حاصل ہو جاتی ہے۔

مرجعیت کا عنوان امام ؑ کی نیابت کا عنوان ہے اور ہمارا اس عنوان کے ساتھ معاملہ تقدس کی بنیادوں پر قائم ہے۔

اگر ہم اس فتوی کی خصوصیات کو دیکھیں تو اس میں سب سے انفرادی پہلو یہ ہے کہ جس دشمن کے خلاف فتوی دیا گیا وہ کون ہے؟ ہمارے سامنے کوئی مشخص دشمن نہیں ہے اور نا ہی یہ دشمن کوئی حکومت ہے کہ جس کے ساتھ حکومت یا ملک کی طرح معاملہ اور رویہ اختیار کیا جائے یہ دشمن عالمی قوانین اور عالمی تنظیموں کے تابع نہیں ہے اور نا ہی اس کے ساتھ کسی معلوم واسطہ کے ذریعے بات ہو سکتی ہے لہٰذا اس دشمن کے خلاف فتوی کا اصدار آسان نہیں تھا کیونکہ اس دشمن کی فائل قتل و غارت گری، سنگدلی اور دہشت گردی سے بھری ہوئی تھی لہٰذا ضروری تھا کہ جب اس دشمن کا مقابلہ کیا جائے تو پوری قوت اور اتحاد کے ساتھ اس پر حملہ کر کے اسے ختم کر دیا جائے اور فتوی کے صدور کے بعد ایسا ہی ہوا اور ہمیں یقین تھا کہ اس کے نتائج بھی مثبت آئیں گے اور الحمد للہ آج ہم اپنی آنکھوں سے اس کے نتائج کو دیکھ رہے ہیں۔

افتتاحی تقریب میں اس سیمینار کی انتظامیہ کی طرف سے ڈاکٹر کریم حسین ناصح نے بھی خطاب کیا اور داعش کے خلاف حاصل ہونے والی فتوحات کا ذکر کیا۔

فتوی دفاع پہ لبیک کہنے والوں اور اس فتوی کے صدور سے پہلے اور بعد کے حالات پر لکھی جانے والی کتاب کے بارے میں بھی افتتاحی تقریب کے دوران حاضرین کو بریفنگ دی گئی اور اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی۔

شاعر حسن سامی اور حیدر احمد نے اس تقریب میں شھداء اور مرجعیت کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی خدمت میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

تقریب کا اختتام مابین الحرمین میں لگائی گئی تصویری اور کتابی نمائش کے افتتاح پہ ہوا کہ جس میں اس مقدس فتوی کے حوالے سے بہت ساری چیزوں کو پیش کیا گیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: