اعلی دینی قیادت: عراقی عوام کو اپنے اجتماعی، مالی، سیاسی اور عسکری حقوق کے لیے خود پر قابو رکھتے ہوئے غم وغصہ کا اظہار کرنا ہو گا۔

جو شخص حق غصب کرتا ہے وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق اسی کے ہاتھ میں رہیں لیکن صاحب حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کرے کیونکہ اپنے حقوق لیے جاتے ہیں کوئی آپ کو آپ کے حقوق نہیں دے گا، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنے حقوق کے نہ ملنے پر غم و غصہ کا اظہار کرنا چاہیے اور جب انسان اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے اور غم وغصہ کا اظہار کرتا ہے تو یہ عمل ایک روشن دلیل بن جاتا ہے لہذا عراقی عوام کو اپنے اجتماعی، مالی، سیاسی اور عسکری حقوق کے لیے خود پر قابو رکھتے ہوئے غم وغصہ کا اظہار کرنا ہو گا۔

اس بات کا ذکراعلیٰ دینی قیادت کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (دامت برکاتہ) نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ کے دوران (20 ذي القعدة 1439هـ) بمطابق (3اگست 2018ء) کو روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام میں کیا۔

میرے بھائیو اور بہنو غصہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا تھا غصے کے منفی نتائج اور اثرات کا نہ تو کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان پر قابو پایا جا سکتا ہے، ہم اُس وقت اس کی کچھ مثالیں بھی ذکر کی تھیں۔ آج ہم غصے کے مثبت اثرات او نتائج کے بارے میں گفتگو کریں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ انسان غصے کے ذریعے انسان اپنے مقاصد کے حصول میں مدد لے سکتا ہے یا نہیں؟

غصہ ایک فطرتی، جذباتی اور جبلی کیفیت ہے احادیث میں کہا گیا ہے کہ غصہ ظاہر کرنے کے مناسب وقت پر جس کو غصہ نہ آئے اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

حدیث میں غصے کے مثبت پہلو کو انتہائی خوبصورت تعبیر میں بیان کیا گیا ہے غصہ ایک تکونی کیفیت ہے انسان ایسے حالات سے گزرتا ہے کہ اسے غصہ آ جاتا ہے غصہ بنی نوع انسان اور انسانی شخصیت کی حفاظت کرتا ہے۔

جب انسان کا سامنا غصہ دلانے والے امور سے ہوتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے لیکن اگر یہ غصہ عقل اور قابو سے باہر ہو جائے تو اس کا شمار منفی نتائج کے حامل غصہ میں ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ندامت ہوتی ہے۔ لیکن اگر انسان کا غصہ کسی حقیقی شخصی، اجتماعی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری مسئلہ پر ہو اور وہ اس غصہ کی بنیاد پر گھر سے نکل کر اس مسئلہ کا سامنا کرے اور اپنے آپ پر کنٹرول بھی رکھے رہے تو یہ قابل تعریف غصہ ہے۔

اس غصے کی بدولت ملکوں اور زمینوں کو محفوظ بنایا گیا اور مقدسات کو بے حرمتی سے بچایا گیا جب انسان کو غصہ کے دوران غصے کے سبب اور اسے صحیح راستہ پہ گامزن رکھنے کا ادراک رہتا ہے تو اس سے ایجابی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور ایسی صورت میں غصہ ایسا فعل بن جاتا ہے جس کی بنیاد، تصرف اور ہدف الف سے یاء تک واضح ہوتا ہے۔ ایسے کنٹرول غصہ کی زبان، مقصد ومطلب اور حق ظاہر ہوتا ہے جسے غصہ ظاہر اور بیان کرتا ہے۔

یاد رکھیں حقوق لیے جاتے ہیں دیئے نہیں جاتے۔ جو شخص حق غصب کرتا ہے وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق اسی کے ہاتھ میں رہیں لیکن صاحب حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کرے کیونکہ اپنے حقوق لیے جاتے ہیں کوئی آپ کو آپ کے حقوق نہیں دے گا، اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنے حقوق کے نہ ملنے پر غم و غصہ کا اظہار کرنا چاہیے اور جب انسان اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے اور غم وغصہ کا اظہار کرتا ہے تو یہ عمل ایک روشن دلیل بن جاتا ہے۔

بیشک غصہ کا اظہار ایک اہم مسئلہ ہے انسان کو اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکنی چاہیے ہر چیز کے لیے غصہ نہیں کیا جاتا بلکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں غصہ کی بنیاد معرفت پر ہونی چاہیے اگر کہیں حقیقی طور پر اجتماعی، اقتصادی، مالی، سیاسی اور عسکری مسائل ہیں تو وہاں ان مسائل کا ذکر غم و غصہ سے ہونا چاہیے لیکن اسے کنٹرول میں رہنا چاہیے دنیا کا قاعدہ بن چکا ہے اپنے حقوق خود لینے پڑتے ہیں لہذا جو بھی اپنا حق لینا چاہتا ہے اسے کنٹرول کے دائرہ میں رہتے ہوئے غصے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ یہ غصہ مضبوط دلیل، واضح ہدف اور عقلانی عزم بن سکے۔

میری اس گفتگو کا مقصد منفی اور مثبت غصے میں موازنہ کرنا تھا، بے شک مثبت غصے کی بدولت ملکوں اور زمینوں کو محفوظ بنایا گیا اور مقدسات کو بے حرمتی سے بچایا گیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: