سانحہ کربلا: شعراء اور ادباء کا مصدرِ الہام

’’کربلا کا واقعہ زمانی اعتبار سے ساتویں صدی کی آٹھویں دہائی کا ہے اور زمینی اعتبار سے عرب کے ایک مقام کربلا سے متعلق ہے۔ اس معرکۂ حق و صداقت کے بعد پوری انسانی تاریخ متاثر ہوئی اور تمام اقوام نے اس سے حوصلہ اور رہنمائی حاصل کی۔ عالمی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ خیر و شر کے تصادم کے حوالے سے ہی یادگار نہیں بلکہ حضرت امام حسین(ع) نے قربانی و ایثار سے جو نقوش ابھارے اس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت امام حسین(ع) دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے حریت و آزادی کی ایک ایسی علامت ہیں جن سے بلالحاظِ مذہب و ملت ہر انسان محبت کرتا ہے اور دل سے خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔‘‘
برصغیر میں شاید ہی کوئی ایسا اہلِ قلم ہو جس نے اس واقعہ کا تذکرہ اپنے افکار میں نہ کیا ہو۔ تمام نامور غیرمسلم اہلِ قلم نے بھی اس کا اظہار نہایت عقیدت سے کیا ہے۔(’’بوستانِ عقیدت‘‘ نور احمد میرٹھی)

ہر زبان کے ادب نے کربلا کے موضوع سے فکری روشنی حاصل کی ہے۔ کربلا محض ایک حدیثِ غم ہی نہیں بلکہ اسرارِ حیات و کائنات کی معرفت سے بھر پور ایک بے مثال اخلاقی و تربیتی مخزن بھی ہے۔ یوں تو اردوسمیت ہر زبان کے ادب کی تمام تخلیقی اصناف کربلا کے ادراک سے لبریز نظر آتی ہیں لیکن اردو شاعری کی تاریخ اس موضوع کے بغیر اپنی شناخت ہی مکمل نہیں کر پاتی۔ اردو شعر و ادب کربلا سے صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ مضمونِ کربلا نے اردو شاعری کو کئی گرانقدر اصناف سے آراستہ بھی کیا ہے۔ تاریخِ ادب کے جائزہ سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ سلام، مرثیہ، نوحہ اور منقبت جیسی اصناف کی تجسیم و تخلیق کربلا کے بغیر نا ممکن تھی۔

امام حسین(ع) اور کربلا کے بارے میں کچھ مشہور اردو اشعار:

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوووں سے مسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا ، آگ پہ بھی چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارےکو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا

(جوش ملیح آبادی)

صدق خلیل بھی ہے عشق
صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر وحنین بھی ہے عشق
حقیقت ابدی ہے قیام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

(علامہ اقبال)

گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پر باندھے ہوئے قطار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط آب تھا

(میر انیس)


لوحِ جہاں پہ نقش ہے عظمت حسینؓ کی
حق کو شرف ملا ہے بدولت حسینؓ کی
ہوئی ہے تازہ دل میں رسولِؐ خدا کی یاد
کہتے تھے لوگ دیکھ کے صورت حسینؓ کی
تھا اعتقاد میرے بزرگوں کو بھی ادیبؔ
میراث میں ملی ہے محبت حسینؓ کی
(گرسرن لال ادیبؔ لکھنوی)

موقوف کچھ نہیں ہے انیسؔ و دبیرؔ پر
راہیؔ بھی کہہ رہا ہے ترا مرثیہ حسینؓ
میں حق پرست مبصر ہوں اس لیے شبیر!
تمہیں ہی فاتحِ عالم قرار دیتا ہوں
کاش پھر پیغام حق لے کر یہاں آئیں حسینؓ
زندگی کو اک نیا پیغام دے جائیں حسینؓ

(رگھبیر سرن دواکر المعروف راہیؔ امروہوی)

حسینؓ درد کو، دل کو ، دعا کو کہتے ہیں
حسینؓ اصل میں دینِ خدا کو کہتے ہیں
حسینؓ حوصلۂ انقلاب دیتا ہے
حسینؓ شمع نہیں آفتاب دیتا ہے
حسینؓ لشکرِ باطل کا غم نہیں کرتا
حسینؓ عزم ہے ماتھے کو خم نہیں کرتا
حسینؓ سلسلۂ جاوداں ہے رحمت کا
حسینؓ نقطۂ معراج ہے رسالت کا
حسینؓ جذبۂ آزادئ ہر آدم ہے
حسینؓ حریتِ زندگی کا پرچم ہے
حسینؓ صبحِ جہاں تاب کی علامت ہے
حسینؓ ہی کو بھلا دیں یہ کیا قیامت ہے
بروزِ حشر نشاطِ دوام بخشے گا
حسینؓ درشنِؔ تشنہ کو جام بخشے گا

(سنت درشن جی مہاراج درشنؔ۔ نظم ’’فاتح کربلا‘‘)


کنور مہندر سنگھ بیدی حضرت امام حسین کو یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:
بڑھائی دینِ محمدؐ کی آبرو تُو نے
جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے
چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر
عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بو تُو نے
زندہ اسلام کو کیا تُو نے
حق و باطل دکھایا تُو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکھا دیا تُو نے


ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ
ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی
(رام پرکاش ساحرؔ )
لاالٰہ کی سطوتِ شوکت کے حامل زندہ باد
قائدِ اربابِ حق جانِ قیادت زندہ باد
(رانا بھگوان داس)
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: