علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھتے ہیں: تیرہ محرم کو بنی اسد کی خواتین دریائے فرات سے پانی لینے آئيں تو انھوں نے زمین پر بہت سے لاشے بکھرے ہوئے دیکھے کہ جن کے جسموں سے تازہ خون بہہ ایسے رہا تھا کہ گویا انھیں آج ہی شہید کیا گیا ہے، خواتین یہ منظر دیکھ کر روتی ہوئيں واپس اپنے قبیلے والوں کے پاس گئيں اور ان سے کہا: تم یہاں اپنے گھروں میں بیٹھے ہو اور رسول خدا(ص) کے بیٹے امام حسین(ع) اور اس کے اہل و عیال اور ساتھیوں کو ریت پہ قربانی کے جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا ہے، جب تم رسول خدا(ص)، امیرالمومنین(ع) اور حضرت فاطمہ(ع) کی بارگاہ میں حاضر ہو گے تو ان کے سامنے کیا عذر پیش کروں گے؟ اگرچہ تم نے امام حسین(ع) کی مدد ونصرت کا موقع کھو دیا ہے لیکن ابھی اٹھو اور جا کر ان پاک وپاکیزہ لاشوں کو دفن کرو، اگر تم نے ان کو دفن نہ کیا تو ہم خواتین خود جا کر ان کے دفن کے کام کو سرانجام دیں گی، اس کے بعد بنی اسد کے مرد ان پاک طاہر لاشوں کو دفن کرنے کے لیے آ گئے لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ کون سا لاشہ کس کا ہے؟
یہ لوگ اسی شش و پنج میں کھڑے تھے کہ ان کے پاس ایک گھوڑا سوار نمودار ہوا کہ جو روتے ہوئے انھیں کہہ رہا تھا میں تمہاری ان لاشوں کے بارے میں رہنمائی کرتا ہوں، اس کے بعد وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور مقتولین کے پاس سے گزر کر اپنے بابا امام حسین(ع) کے لاشہ کے پاس جا کر رک گئے پھر بیٹھ کر لاشہ کو گلے لگا لیا اور اونچی آواز میں رونا اور لاشہ کے بوسے لینے شروع کر دیے اور فرمایا: اے میرے بابا آپ کے بعد ہمارا کرب و الم بہت لمبا ہو گیا ہے۔۔۔ اے بابا آپ کے بعد ہمارا حزن وغم بہت طولانی ہو گیا ہے۔۔۔ پھر امام زین العابدین(ع) اپنے بابا کی قبر والی جگہ آئے اور وہاں سے تھوڑی سی مٹی اٹھائی تو پہلے سے ایک بنی بنائی قبر ظاہر ہو گئی، اس کے بعد امام زین العابدین(ع) نے اپنے بابا کے لاشہ کو تنہا ہی قبر میں رکھ دیا، امام حسین(ع) کے لاشہ کو قبر میں اتارنے میں امام زین العابدین(ع) نے بنی اسد سے مدد نہ لی اور ان سے فرمایا: میرے ساتھ میری اس سلسلہ میں مدد کرنے والے افراد موجود ہیں، امام زین العابدین(ع) نے اپنے بابا کے لاشہ کو قبر میں رکھنے کے بعد اپنا رخسار ان کے کٹے ہوئے گلے پر رکھ کر فرمایا: سعادت و خوشبختی ہے اس زمین کے لیے جس نے آپ کے جسم کو اپنے اندر سمویا، اے بابا آپ کے بعد یہ دنیا اندھیری ہو گئی ہے اور آخرت آپ کے ذریعے چمک اٹھی ہے، بابا آپ کے بعد راتیں جاگتے ہوئے گزریں گی اور حزن و غم کبھی ختم نہ ہو گا، امام زین العابدین(ع) نے اپنے بابا کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پہ یہ لکھا: هذا قبر الحسين بن علي بن أبي طالب (عليه السلام)، الذي قتلوه عطشاناً غريباً.(یہ حسین بن علی بن ابی طالب کی قبر ہے کہ جس کو اپنے وطن سے دور ان لوگوں نے پیاسا قتل کر ڈالا)۔
امام حسین(ع) کو دفن کرنے کے بعد امام زین العابدین(ع) اپنے چچا حضرت عباس(ع) کے لاشہ کے پاس آئے اور انھیں اس حالت میں دیکھا کہ جس کی وجہ سے آسمان پہ ملائکہ بھی تڑپ اٹھے اور جنت کے محلات میں رہنے والی حوریں بھی رونے لگیں، امام زین العابدین(ع) اپنے چچا حضرت عباس(ع) کے لاشہ پہ گر گئے اور کٹے ہوئے گلے کو بوسہ دے کر فرمایا: اے بنی ہاشم کے چاند تیرے بعد دنیا اندھیری ہو گئی ہے اے شہادت کا درجہ پانے والے میرا آپ پہ سلام ہو اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں آپ پہ نازل ہوں۔ اس کے بعد امام زین العابدین(ع) نے قبر بنائی اور اپنے چچا حضرت عباس(ع) کے لاشہ کو بھی اپنے بابا کی طرح تنہا دفن کیا۔
امام زین العابدین(ع) نے اپنے چچا حضرت عباس(ع) کو دفن کرنے کے بعد بنی اسد کو باقی تمام شہداء کی تدفین میں شریک کیا اور ان کو دو قبریں بنانے کا حکم دیا ایک میں امام علیہ السلام نے بنی ہاشم کی مدد سے بنی ہاشم کو دفن کیا اور دوسری قبر میں باقی تمام اصحاب کو دفن کیا، البتہ جناب حر(ع) کے لاشہ کو ان کے قبیلے والے وہاں لے گئے تھے کہ جہاں آج ان کا مزار ہے۔ جب امام زین العابدین(ع) تمام لاشوں کو دفنانے کے بعد واپس جانے کے لیے گھوڑے پہ سوار ہوئے تو بنی اسد نے ان سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: آپ کو ان ہستیوں کا واسطہ کہ جن کو آپ نے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہے آپ یہ تو بتاتے جائیں آپ ہیں کون؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ کی طرف سے تم پر حجت ہوں میں علی بن حسین(ع) ہوں۔
اس کے بعد امام زین العابدین(ع) جس طرح بااعجاز امامت کوفہ سے کربلا آئے تھے اسی طرح واپس چلے گئے اور اسیرانِ کربلا کے ساتھ مل گئے۔