اس کا جسم تو کربلا جانے والے راستے میں موجود نہیں لیکن اس کی روح اپنی ماں اور دیگر زائرین کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے

جب کوئی طاقتور دشمن کسی طاقتور پشت پناں کے ہمراہ کسی قوم کی آزادی سلب کرنے، اس کی سرزمین کو چھیننے اور اس کے مقدسات کو پامال کرنے کے لیے آ جائے تو اس وقت اپنی عزت و ناموس کی حفاظت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے تن من دھن کی قربانی دینی پڑتی ہے والدین کو اپنے جگر گوشوں اور زندگی کے آخری سہاروں کو جنگ کی بھٹی کے حوالے کرنا پڑتا ہے، مائیں صبر وتحمل اور ایثار کی لازوال داستانیں رقم کرتی ہیں، ماؤں کے لعل جب میدان جنگ میں ہوتے ہیں تو مائیں فتح ونصرت اور اپنے بیٹوں سمیت سب کی زندگی کی دعائیں کرتی ہیں اور اگر کسی ماں کا بیٹا شہید ہو جائے تو وہ اس کی تصویر کو سینے پر سجائے فخر بھی کرتی ہے اور جگر کا ٹکڑا چھننے پہ غمزدہ بھی رہتی ہے.......

ایسی ہی ہزاروں داستانوں نے اس وقت جنم لیا جب داعش نے عراق کی سرزمین پر حملہ کیا اور ظلم و ستم اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کردیا......

عراقی عوام نے دنیا کے سب بڑے اور طاقتور دہشت گرد گروپ ’’داعش‘‘ کو شکست دے کر شجاعت کی انمٹ تاریخ تو رقم کر دی لیکن اس کے لیے کتنی بڑی قربانیاں دینی پڑیں اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں جنھوں نے داعش کے خلاف اعلی دینی مرجعیت کے فتوی پر لبیک کہا.....

داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والوں اور انسانی مقدسات کی حفاظت کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والوں میں ایک نام محمد شرف المنصوري کا بھی ہے جو ہر سال امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے پیدل جایا کرتا تھا پیدل جانے والے زائرین کی خدمت کیا کرتا تھا لیکن اس مرتبہ اس کا جسم تو کربلا جانے والے راستے میں موجود نہیں لیکن اس کی روح اپنی ماں اور کربلا پیدل جانے والے زائرین کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور اس کی تصویر اس کی ماں اپنے سینے پر سجائے ہوئے کربلا کی جانب بڑھ رہی ہے.....

کربلا کے راستے میں یہ صرف ایک ماں نہیں بلکہ ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں مائیں اہنے شہید بیٹوں کو تصاویر اٹھائے کربلا کی جانب پیدل جا رہی ہیں پورے راستہ میں جگہ جگہ شہداء کی تصاویر آویزاں ہیں جو ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اگر یہ شہداء نہ ہوتے تو آج زائرین اس آزادی کے ساتھ کربلا نہ جا رہے ہوتے اور نہ یہ مراسیم اربعین اس طرح ادا ہو رہی ہوتیں.....
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: