حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کو باب الحوائج کیوں کہا جاتا ہے

آئمہ معصومین کے قریب ترین ہستیوں میں سے جن کو باب ا لحوائج ہونے کا شرف حاصل ہے ان میں سے سرفہرست جناب ام البنین سلام اللہ علیہا کا نام لیا جاتا ہے۔

حضرت ام ‏البنین با معرفت اور پر فضیلت خواتین میں سے تھیں۔ آپ اہل بیت کی حقانیت سے خوب واقف تھیں۔ خاندان نبوت سے خاص محبت اور شدید و خالص دلبستگی رکھتی تھیں اور اپنے آپ کو ان کی خدمت کیلئے وقف کئے ہوئے تھیں۔

حضرت ام ‏البنین شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات، ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیا تھا۔

جب ان کی شادی حضرت علی علیہ السلام سے ہوئی تو انہوں نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں فاطمہ کے نام سے نہ پکارا جائے کیونکہ جب بھی انہیں ان کے اصلی نام سے پکارا جائے گا تو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے بچوں کو ان کی والدہ یاد آئیں گی اور وہ کسی بھی صورت میں رسول خدا(ص) کی اولاد کو دکھی نہیں کرنا چاہتیں۔حضرت علی علیہ السلام نے ان کی اس درخواست پہ انہیں ام البنین (یعنی بیٹوں کی ماں) کا لقب دیا اور انہیں ہمیشہ اسی لقب سے ہی پکارا اور تاریخ نے بھی ان کو نام کی بجائے اسی لقب سے ہی یاد کیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جناب ام البنین کو چار بیٹے عطا کیے اور وہ حضرت علی علیہ السلام کے عطا کردہ نام کی حقیقی تصویر بن گئیں۔

جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی اہل بیت علیہ السلام اور اولاد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے غیرمشروط محبت، اخلاص، عقیدت اور جان نثاری کی تعلیم دی تھی۔

مؤرخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین ( علیہ السلام) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو؟ بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:" مجھے حسین ( علیہ السلام) کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: "اے بشیر! مجھے ابی عبدا للہ الحسین کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔" جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا: " اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔۔

یہ جلیل القدر ہستی خداوندمتعال، خاندان نبوت و اہلبیت کے نزدیک ایک عظیم مقام و منزلت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ان کے وسیلہ سے خدا کے حضور کوئی دعا کرے تو وہ مستجاب ہوتی ہےاور مومنین آپ سے خاص محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: