حضرت علی نقی(ع) کی ولادت باسعادت مدینہ کے ایک قریبی گاؤں میں 2رجب 214 ہجری میں ہوئی روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے خدام تمام محبان اہلبیت کو سلسلہ امامت کے دسویں تاجدار حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے جشن میلاد پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اس پُر مسرت موقع پر مومنین کی حاجات اور تمناؤں کے پورا ہونے کے لیے دعا گو ہیں۔
آج کے دن کی مناسبت سے ہم اپنے دسویں امام علی نقی(ع) کا ذکر کرتے ہیں:
نام، کنیت اور لقب: آئمہ اہل بیت میں سے دسویں امام کا نام ’’علی‘‘ ، کنیت ابو الحسن اور مشہور لقب ہادی اور نقی ہے۔
تاریخ ومقام ولادت اور شہادت: حضرت علی نقی(ع) کی ولادت باسعادت مدینہ کے ایک قریبی گاؤں میں سن 214 ہجری میں ہوئی، جبکہ 3رجب سن 254 ہجری میں امام علی نقی(ع) کو سامرہ میں زہر سے شہید کیا گیا اور سامرہ میں ہی دفن کیا گیا۔
والدہ ماجدہ: امام علی نقی علیہ السلام کی والدہ ام ولد ہیں اور اُن کا نام ام فضل ہے۔
امام علی نقی علیہ السلام نے 40سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا، زندگی کے ان چالیس سالوں میں سے چھ 6سال اپنے والد کے ساتھ گزارے اور اُن کی شہادت کے بعد 33 سال اور چند مہینے زندہ رہے۔
اولاد: امام علی نقی علیہ السلام کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جن کے نام یہ ہیں:
(1): امام حسن عسكری(ع)، (2):حسين، (3): محمد، (4):جعفر
اور بیٹی کا نام: عليہ ہے۔
متوكل کا دور حکومت: حضرت علی علیہ السلام اور ان کی ذریت سے متوكل کا بغض کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے امام علی نقی علیہ السلام کے مدینہ میں عزت و احترام کے بارے میں جب متوکل کو معلوم ہوا تو اسے امام علیہ السلام کی لوگوں میں مقبولیت سے خوف لاحق ہو گیا لہذا اس نے یحیی بن ہرثمہ کو بلایا اور اسے مدینہ جانے اور وہاں سے امام علی نقی علیہ السلام کو لانے کا حکم دیا۔
یحيى کہتا ہے: جب میں مدینہ میں داخل ہوا تو مدینہ کے رہنے والوں نے احتجاج کرنا اور شور مچانا شروع کر دیا لوگوں نے امام علی نقی(ع) کے لیے اس دن کی مانند پہلے کبھی خوف محسوس نہیں کیا تھا، سب لوگ باہر آ گئے کیونکہ امام علی نقی(ع) سب کے ساتھ نیکی و احسان سے پیش آتے تھے، زیادہ وقت مسجد میں گزارتے تھے اور دنیا سے انھیں بالکل لگاؤ نہیں تھا۔ یحيى کہتا ہے میں نے لوگوں کو تسلی دی اور قسم اٹھا کر بتایا کہ مجھے انھیں ضرر پہنچانے کا حکم نہیں ملا وہ خیریت سے ہیں۔ پھر میں نے امام علی نقی علیہ السلام کے گھر کی تلاشی لی لیکن مجھے وہاں سے قرآن، دعاؤں اور مختلف علوم کی کتابوں کے کچھ نہ ملا، جس سے میری نظر میں ان کی عظمت اور بھی بڑھ گئی، جس کے بعد میں نے خود ان کی خدمت کی ذمہ داری سنبھال لی اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔
امام علی نقی علیہ السلام کو سامراء لے جا کر ایک گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور ان کی مکمل نگرانی شروع کر دی گئی پھر ایک رات متوکل نے ترکوں کے ایک گروہ کو بھیجا جس نے امام کے گھر پہ حملہ کر دیا اور امام(ع) کو گرفتار کر کے متوکل کے پاس لے گیا۔ متوکل کو ان ترکوں نے بتایا کہ ہمیں امام کے گھر میں سے کچھ نہیں ملا، بس وہاں ہم نے امام کو قبلہ رخ ہو کر قرآن پڑھتا ہوا پایا۔
جب امام علی نقی علیہ السلام کو متوکل کے پاس لایا گیا تو اس وقت وہ شراب پی رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا لیکن امام علی نقی علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس پہ ہیبت طاری ہو گئی اور وہ امام کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس محفل میں علی بن جہم بھی تھا متوکل نے اُس سے سب سے بڑے شاعر کے بارے میں پوچھا تو اُس نے زمانہ جاہلیت کے بعض شعراء کا ذکر کیا۔ پھر اس نے امام سے سب سے بڑے شاعر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا سب سے بڑا شاعر حمانی ہے جس نے کہا ہے:
لقد فاخرتنا من قريش عصابة***بمط خدود و امتداد اصابع
فلما تنازعنا المقال قضى لنا***عليهم بما نهوى نداء الصوامع
ترانا سكوتاً والشهيد بفضلنا***عليهم جهير الصوت في كل جامع
فان رسول الله احمد جدنا***ونحن بنوه كالنجوم الطوالع
یعنی: قریش کے ایک گروہ نے ہم پر اپنے لچک دار گالوں اور لمبی انگلیوں کی بنیاد پر فخر کیا، جب ہم نے اختلاف و بحث مباحثہ کیا تو ہمارے حق میں نداء الصوامع (عبادت گاہوں سے اٹھنے والی آواز) نے فیصلہ کر دیا، تم نے ہمیں خاموش پایا اور ہماری ان پر فضلیت کی گواہ ہر مسجد میں اٹھنے والی بلند آواز ہے، اللہ کے رسول حضرت احمد(ص) ہمارے جد امجد ہیں اور ہم ان کے چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند بیٹے ہیں۔ متوکل نے کہا: اے يا ابو الحسن یہ نداء الصوامع کیا ہے؟ تو امام نے فرمایا: اشهد ان لا إله إلا اللّه وأن محمداً رسول الله.
شیعہ ہونے والا شخص: اصفہان میں عبد الرحمن نامی ایک شخص رہا کرتا تھا، یہ شخص شیعہ تھا اور بلاخوف جرأت کے ساتھ بولنے میں مشہور تھا۔ ایک دفعہ کسی نے اس سے پوچھا: تمہارے شیعہ ہونے اور حضرت علی نقی علیہ السلام کو امام ماننے کا کیا سبب ہے؟ عبدالرحمن نے کہا: ایک دفعہ اصفہان کے لوگ میری شکایت لگانے کے لیے مجھے پکڑ کر متوکل کے دروازے پہ لے گئے، جب ہم داخل ہونے کی اجازت کے انتظار میں دروازے پہ کھڑے تھے تو وہاں امام علی نقی علیہ السلام کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر ہوا۔ میں نے اپنے ساتھ کھڑے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا: ابھی جس آدمی کو خلیفہ نے حاضر کرنے کے لیے کہا ہے وہ کون ہے؟ تو مجھے اس نے بتایا: یہ حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے، رافضی اسے اپنا امام مانتے ہیں اور متوکل اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا اس آدمی کو دیکھے بغیر میں نہیں جاؤں گا، پھر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ امام علی نقی علیہ السلام گھوڑے پہ سوار وہاں آ گئے، لوگ انھیں دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور ان کے راستہ سے ہٹ کر دونوں طرف لائنوں میں کھڑے ہو کر انھیں دیکھنے لگے۔ جب میری نظر ان پہ پڑی تو میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہو گئی، میں نے دعا کی کہ اللہ انھیں متوکل کے شر سے محفوظ رکھے۔ امام لوگوں کے درمیان دائيں بائيں دیکھے بغیر آگے بڑھ رہے تھے اور میں اپنے دل میں ان کے لیے مسلسل دعا کر رہا تھا، جب امام علی نقی علیہ السلام میرے سامنے آئے تو امام نے مجھ سے کہا: اللہ نے تیری دعا قبول کر لی ہے اور تمہاری عمر کو طولانی کر دیا ہے اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں اضافہ کر دیا ہے۔ عبد الرحمن نے کہا: میں ان کی ہیبت و جلالت سے کانپ گیا اور اپنے ساتھیوں میں جا گرا، انھوں نے مجھ سے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: خیریت ہی ہے۔
میں نے مخلوق میں سے کسی کو اس بارے نہ بتایا، پھر جب میں واپس اصفہان آیا تو اللہ نے مجھ پر امام علی نقی علیہ السلام کی دعا سے اپنے رزق کے دروازے کھول دیے، اور آج ہزار ہزار درہم پہ اپنا دروازہ بند کرتا ہوں اور گھر سے باہر جو میرا مال ہے وہ اس کے علاوہ ہے، مجھے اللہ نے دس بیٹے دیے اور میں اب ستر سال سے زیادہ کا ہو چکا ہوں۔