9 رجب جناب عبد اللہ بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ (علی اصغر) کا یوم ولادت

یہ کہا جاتا ہے کہ 9 یا 10 رجب 60 ہجری کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہاں جناب عبداللہ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ عبد اللہ بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ یا عبد اللہ رضیع، امام حسینؑ کے شیر خوار اور کمسن فرزند تھے جو علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں ۔

نسب : عبد الله امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں اور آپکی مادر گرامی امرؤ القیس کی بیٹی رباب سلام اللہ علیہا ہیں۔

نام مبارک :اہل تشیع و اہل سنت کے قدیمی منابع کے مطابق اس بچہ کا نام عبداللہ ہے، لیکن اہل تشیع کے موخر منابع کے مطابق آپ علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں۔

مقتل الحسین اخطب خوارزم اور مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب میں امام حسین علیہ السلام کے شیر خوار فرزند کو علی کے نام سے یاد کیا ہے۔ انہی منابع کی پیروی کرتے ہوئے اب تک اس بچہ کو علی اصغر کہا جاتا ہے اور غالباً امام سجاد کو علی اوسط کا لقب دیا گیا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کے ناموں کے متعلق کلینی کی روایت کے مطابق جب مروان نے امام حسین علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ اپنے دو فرزندوں کا نام علی کیوں رکھا ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرے ١٠٠ فرزند بھی ہوتے تو میں ان سب کا نام علی ہی رکھتا۔

شہادت : تاریخی کتابوں میں علی اصغر ؑ کی شہادت کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں.

جیسا کہ شیخ مفید کہتے ہیں: امام حسین علیہ السلام نےامام حسن علیہ السلام کے فرزند قاسم کے لاشہ کو دوسرے شہداء کے ساتھ رکھا اور خیمہ کے آگے بیٹھ گئے اور علی اصغر کو آپ کے پاس لایا گیا امام علیہ السلام نے علی اصغر کو آغوش میں لیا۔ اسی وقت بنی اسد کے ایک مرد نے ایک تیر علی اصغر کی طرف چلایا اور آپکو شہید کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے علی اصغر کے گلے کے نیچے ہاتھ رکھا جب ہاتھ خون سے بھر گیا تو آپ ؑ نے خون کو زمین پر گرایا اور فرمایا: خدایا اگر آسمان سے ہماری غیبی مدد نہ فرمائی تو اسے اس چیز میں قرار دے جس میں ہماری بہتری ہے اور ظالموں سے ہمارا انتقام لے۔ پھر علی اصغر کو اٹھایا اور دوسرے شہداء کے ساتھ لٹا دیا۔

کچھ افراد کے مطابق زینبؑ بچہ کو لے کر بھائی کے پاس آئیں اور فرمایا کہ لشکر سے اس بچے کے لئے پانی طلب کریں اور امام ؑ بچہ کو لشکر کے سامنے لے گئے اور فرمایا: (اے لشکر شام تم نے میرے اہل بیت اور پیروکاروں کو شہید کر دیا اب صرف یہی بچہ رہ گیا ہے جو پیاس کی وجہ سے بلک رہا ہے۔ اس کو پانی کاایک قطرہ دے دیں) جب امام حسین ؑ لشکر سے مخاطب تھے اسی وقت ایک مرد نے بچے کی جانب تیر پھینکا اور شہید کر دیا۔

ابن جوزی نے ہشام بن محمد کلبی سے روایت نقل کی ہے: ... اس وقت امام حسین علیہ السلام نے بچے کی طرف دیکھا جو کہ پیاس سے نڈھال ہو چکا تھا، بچے کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: (اے قوم! اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے تو اس بچے پر رحم کرو) اس وقت اہل کوفہ کے لشکر میں سے ایک مرد نے بچے کے گلے میں تیر مارا اور شہید کر دیا.

اس واقعہ پر امام حسین علیہ السلام نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا: «اللّہمّ احکم بیننا و بین قومٍ دعونا لینصرونا فقتلونا:پروردگارا! تو خود ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر، جنہوں نے ہمیں دعوت دے کر بلایا تا کہ ہماری مدد کریں لیکن اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ پھر امام حسین ؑ نے اپنے فرزند کے گلے پر ہاتھ رکھا اور آپکا ہاتھ خون سے بھر گیا اور اس خون کو آسمان کی جانب پھینکا اور فرمایا "ہون علی ما نزل بی انہ بعین اللہ : جو چیز ان سب سختیوں اور مشکلوں کو میرے لئے آسان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے محضر میں ہیں۔ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس خون سے ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ پلٹا۔

امام علیہ السلام علی اصغر ؑ کے بے جان جسم کو لے کر خیمے کی جانب گئے اور پھر اسے دفن کرنے کے بعد خود میدان کی جانب روانہ ہوئے۔ بعض قول کے مطابق امام ؑ نے اپنے فرزند کی شہادت کے بعد فرمایا: (خدایا اس بچے کی شہادت تیرے نزدیک صالح کی سواری کو مارنے سے کم نہیں ہے۔ خدایا اگر آج فتح اور نصرت ہمارے مقدر میں نہیں تو اسے اس دن کے لئے قرار دے جو ہمارے لئے بہتر ہے) کہا گیا ہے: امام حسین ؑ نے اپنی تلوار سے زمین کو کھودا اور چھوٹی سی قبر بنائی جس میں بچے کو دفن کر دیا۔ لیکن بعض مورخین نے لکھا ہے کہ امام ؑ علی اصغر کو خون بھری حالت میں خیمے کی جانب لائے اور حضرت زینب (ع) کے سپرد کیا۔ اور بعض نے لکھا کہ امام حسین ؑ علی اصغر ؑ کا جنازہ لے کر آئے اور دوسرے شہداء کے ساتھ رکھ دیا۔

جناب علی اصغر (ع) کی شہادت ائمہ طاہرین کے نزدیک، کربلا کی سب سے زیادہ سوزناک اور دلگداز شہادت ہے۔ منہال بن عمرو کوفی کہتے ہیں: مدینے میں امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام نے پوچھا: حرملہ کا کیا ہوا؟ عرض کیا: جب میں کوفہ سے نکلا تو وہ زندہ تھا۔ امام علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور تین بار دعا کی: اللھم اذقہ حر الحدید، اللھم اذقہ حر الحدید، اللھم اذقہ حر الحدید، یعنی خدایا اسے لوہے کی گرمی کا مزہ چکھا دے۔
نیز عقبہ بن بشیر اسدی کہتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ہم تم قبیلہ بنی اسد سے خون کے طلبگار ہیں۔ اور اس کے بعد جناب علی اصغر کی شہادت کا واقعہ سنایا۔
یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ جناب علی اصغر کی مصیبت کا زخم اہل بیت(ع) کے سینے پر کس قدر شدید تھا۔

الا لعنة الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

زیارت نامہ : زیارت ناحیہ مقدسہ میں

أَلسَّلامُ عَلَی الرَّضیعِ الصَّغیرِ سلام ہو اس چھوٹے شیرخوار پر

کے الفاظ کے ساتھ سلام بھیجا گیا ہے۔ اور اسی طرح زیارت الشہداء میں حرملہ بن کاہل اسدی کا نام علی اصغر کے قاتل کے عنوان سے آیا ہے۔

قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: