13رجب: حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے جشن میلاد کے پُر مسرت دن روضہ مبارک حضرت عباس(ع) پوری دنیا کو مبارک باد پیش کرتا ہے

13 رجب: خانہ کعبہ میں ناطق قرآن، سید الاوصیاء، امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب(ع) کی ولادت باسعادت کا پُر مسرت دن.....


حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب(ع) کے جشن میلاد کے پُر مسرت موقع پر روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے تمام خدام اور الکفیل انٹر نیشنل نیٹ ورک کے سب ارکان پوری دنیا کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

اسی مناسبت سے ہم اپنے قارئین اور فالورز کی خدمت میں جانشین رسول حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں:

نام مبارک: علی(ع)

والد: ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پرورش اور حفاظت کی ذمہ داری باحسن طریقے سر انجام دی۔

والدہ: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ماں کا درجہ رکھتی تھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 8 سال کی عمر میں جناب ابو طالب(ع) کے گھر میں منتقل ہوئے کہ جہاں جناب فاطمہ بنت اسد(س) نے ماں سے بھی بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیال رکھا، بعثتِ نبوی کے فورًا بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہ ایمان لائیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ جب جناب فاطمہ بنت اسد(س) کا انتقال ہواتونبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی قمیض سے ان کا کفن بنایا اور ان کی میت کو قبر میں رکھنے سے پہلے خود قبر میں لیٹے اور تلقین پڑھی۔

تاریخ و مقام ولادت: حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام عام الفیل کے تیسویں سال 13 رجب کو مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔حضرت علی علیہ السلام وہ پہلی اور آخری شخصیت ہیں کہ جن کی ولادت با سعادت خانہ کعبہ میں ہوئی تاریخ میں نہ تو حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کوئی مولود کعبہ میں پیدا ہوا اور نہ ہی ان کے بعد کسی کے بارے میں تاریخ ایسی گواہی دیتی ہے اور خانہ کعبہ میں ولادت با سعادت کا ہونا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی بلند منزلت اور عظیم فضیلت شمار ہوتی ہے۔ غزوہ تبوک کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی اور شجاعت و بہادری کی عظیم تاریخ رقم کی۔ غزوہ تبوک کے موقع پہ رسول کریم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا اور فرمایا: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي. اے علی(ع) تمہاری میرے ساتھ وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کی موسی کے ساتھ تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

زوجات اور اولاد: حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے شادی کی کہ جن کے بطن سے امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، جناب زینب سلام اللہ علیہا اور جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی پیدائش ہوئی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام کسی بھی دوسری خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہ ہوئے البتہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شہادت کے بعد انہوں نے متعدد خواتین سے شادی کی کہ جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:

(1): جناب خولہ حنفیہ۔ ان کے بطن سےجناب محمد اکبر پیدا ہوئے کہ جو محمد حنفیہ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

(2): جناب ام حبیبہ بنت ربیعہ۔ ان کے بطن سے جناب عمر اور جناب رقیہ پیدا ہوئے۔

(3): جناب ام البنین۔ ان کے بطن سے جناب عباس، جناب جعفر، جناب عبداللہ اور جناب عثمان پیدا ہوئے یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہوئے۔

(4): جناب لیلی دارمیہ۔ ان کے بطن سےجناب محمد اصغر(کہ جن کی کنیت ابی بکر ہے)اور عبد اللہ پیدا ہوئے ان دونوں بھائیوں نے بھی کربلا میں جام شہادت نوش کیا۔

(5): جناب اسماء بنت عمیس۔ کہ جن کے بطن سے جناب یحی اور جناب عون پیدا ہوئے۔

(6): جناب ام مسعودثقفیہ۔کہ جن کے بطن سے جناب ام الحسن اور جناب رملہ پیدا ہوئیں۔

مذکورہ بالا خواتین کے علاوہ بھی بعض دیگر خواتین سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے شادی کی کہ جن سے بیٹیاں پیدا ہوئیں اور ان کے نام یہ ہیں: نفیسہ، ام ہانی، رقیہ صغریٰ، ام الکرام، جمانہ، امامہ، ام سلمہ، میمونہ، خدیجہ اور فاطمہ۔



بعض فضائل و خصوصیات:



(1): خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔

(2): سب سے پہلے اسلام لائے یعنی سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔

(3): کمسنی سے ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زیر سایہ پرورش پائی اور تربیت حاصل کی۔

(4): ہر مقام پہ اور مدینہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھائی قرار پائے۔

(5): نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کواپنے کاندھوں پہ اٹھایا اور انھوں نے خانہ کعبہ میں موجود بتوں کو توڑا۔

(6): رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل حضرت علی علیہ السلام سے ہی ہے۔

(7): خیبر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی آنکھ میں اپنا لعابِ دھن لگایا اور ان کے لئے دعا کی۔

(8): حضرت علی علیہ السلام کی محبت ایمان اور حضرت علی علیہ السلام سے بغض منافقت کی علامت ہے۔

(9): مباہلہ کے دن نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے تمام اصحاب میں سے صرف حضرت علی علیہ السلام، ان کی زوجہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور ان کے بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو ساتھ لے کر اہل نجران سے مباہلہ کیا۔

(10): حضرت علی علیہ السلام نے خدا کے حکم سے سورہ برأت میں موجود پیغام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے پہنچایا۔

(11): غدیر کے دن نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔

(12): سلوني قبل ان تفقدوني کا اعلان حضرت علی علیہ السلام سے پہلے تاریخ میں کسی نے نہیں کیا۔

(13): حدیبیہ کے موقع پہ حدیث ’’خاصف النعل‘‘ آپ ہی بارے میں ہے۔

(14): نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے غسل و کفن اور جنازہ و تدفین کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت فرمائی۔

(15): تمام ادیان سے تعلق رکھنے والےعلماء ومحققین حضرت علی علیہ السلام کو تاریخ کی عظیم ترین شخصیت قرار دیتے ہیں۔

(16): حضرت علی علیہ السلام کے بعض خطبات، خطوط اور فرامین پر مشتمل نہج البلاغہ نامی کتاب کی نظیر کسی بھی صحابی کے حوالے سے موجود نہیں ہے اور حضرت علی علیہ السلام کےفصیح و بلیغ اور علمی خزانوں سے بھرے کلام پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس کتاب کو دنیا کی عظیم ترین کتاب قرار دیا جاتا ہے۔

شہادت: 19 رمضان40 ہجری کو عبد الرحمن بن ملجم نے حضرت علی علیہ السلام کے سر اقدس پہ حالت نماز میں زہر میں بجھی تلوار کا وار کیا جس کی وجہ سے21 رمضان 40 ہجری کو 63 سال کی عمر میں آپ نے جام شہادت نوش کیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی63 سالہ زندگی میں سے33 سال رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گزارے کہ جن میں سے بعثت نبوی سے پہلے کے10 سال اور بعثت نبوی کے بعد13 سال مکہ میں گزرے، اور ہجرت کے بعد 10 سال مدینہ میں رہے، اور رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے جانے کے بعد30 سال سےپانچ مہینے کم کا عرصہ اس دنیا میں رہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے5 سال3 مہینے اور7 دن تک ظاہری خلافت کی ذمہ داری ادا کی۔

امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) نے حضرت علی علیہ السلام کو غسل و کفن دیا اور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد وصیت کے مطابق پوشیدہ طور پر نجف اشرف میں دفن کر دیا۔ ایک طویل عرصے تک حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس اسرار اہل بیت کا حصہ رہی اور پھر حالات کے تبدیل ہونے کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو حضرت علی علیہ السلام کی قبر اقدس کے بارے میں آگاہ کیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: