27رجب المرجب ہجرت سے 13 سال قبل بعثت نبوی کا دن......

رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر عبادت کے لیے کوہ حراء میں جایا کرتے تھے اور ہر سال ایک مرتبہ مسلسل پورا ایک مہینہ کوہِ حراء میں گزارتے تھے۔

کوہ حراء مکہ کے شمال میں دو فرسخ کے فاصلے پہ ایک پہاڑ ہے اس پہاڑ کی چوٹی پہ ایک غار ہے کہ جسے غارِ حراء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں یہ غار عبادت و ریاضت کے لیے مناسب جگہ تھی۔

اس غار کا ذکر حضرت ابو طالب علیہ السلام نے بھی اپنے اشعار میں یوں کیا ہے:

وثور ومَن أرسى ثبيراً مكانه

وراق ليرقى في حراء ونازل

یعنی: قسم ہےکوہِ ثور اور اس ذات کی جس نے کوہِ ثبیر کو اس کی جگہ قائم کیا اور قسم ہے اس ہستی کی جو کوہِ حراء کی بلندی پہ جاتی تھی تاکہ بلند مرتبہ حاصل کرے اور قسم ہے اس ہستی کی جو وہاں نازل ہوتی تھی۔

رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال ایک مہینہ غار حراء میں لوگوں اور ان کی شرف، مروّت اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والی عادات سے دور نماز، نوافل اور عبادت کی حالت میں گزارتے، اللہ کے رسول(ص) کا سینہ ناجانے کتنا تنگ ہوتا ہو گا جب آپ(ص) لوگوں کو اللہ کی نافرمانی کرتے دیکھتے ہوں گے جبکہ اللہ نے ان لوگوں کو اپنی اتنی وسیع تر نعمتوں سے نواز رکھا تھا کہ جن کا شمار اور احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے، جس وقت آپ(ص) اللہ کے قرب کی منزلیں طے کر رہے ہوتے تھے اس وقت آپ(ص) لوگوں کو لات اور عزی کے قریب دیکھتے تھے کہ جو نہ نقصان پہنچا سکتے تھے اور نہ فائدہ، نہ کسی کو روک سکتے تھے اور نہ کسی کا دفاع کر سکتے تھے یہ تو بس بے جان پتھر تھے جو نہ بولتے اور نہ ہی سنتے، ان کو تو بس سرکش لوگوں نے بنایا اور پھر اللہ کی بجائے ان کو اپنا معبود بنا لیا۔

ان حالات میں اللہ کے صادق و امین نبی(ص) کو کفر اور سرکشی سے بھری اس دنیا سے الگ لوگوں کی نظروں سے دور اور اللہ کے بہت قریب کسی جگہ کچھ وقت گزارنے کی اشد ضرورت ہوا کرتی تھی تاکہ آپ(ص) وہاں اپنے پروردگار سے راز ونیاز کی باتیں کریں اور اس ہم وغم اور کرب کا شکوہ کریں...

اس غار میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ آپ(ص) کے چچا زاد بھائی حضرت علی علیہ السلام بھی ہوا کرتے تھے کہ جو آپ(ص) کے وہ شاگرد تھے کہ جنھیں آپ(ص) نے ہم جلیسی کے لیے منتخب کیا اور ہمراہی کے لیے اختیار کیا۔

حضرت علی علیہ السلام اس ہمراہی اور ہم جلیسی کے بارے میں فرماتے ہیں: ولقد كان يجاور في كل سنة بحراء، فأراه ولا يراه غيري۔

یعنی: آنحضرت(ص) ہر سال غار حراء میں کچھ عرصہ قیام کرتے تھے اور آپ(ص) کو وہاں صرف میں دیکھا کرتا تھا اور میرے علاوہ کوئی بھی آپ(ص) کو نہیں دیکھتا تھا۔

اس وقت رسول خدا(ص) پوری دنیا میں سے صرف اس نوجوان کا اپنے پاس ہونا کافی سمجھتے تھے کہ جو آپ(ص) کی ایسے ہی اتباع کرتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کی اتباع کرتا ہے، یہ وہ وقت تھا جب پوری زمین پہ صرف یہ ایک نوجوان آپ(ص) والی رائے رکھتا تھا، آپ(ص) کی طرح کی عبادت کرتا تھا اور آپ(ص) بتائی ہوئی صراط مستقیم پہ چلتا تھا۔

بعثت نبوی

اللہ تعالی نے صادق و امین کو 27رجب المرجب ہجرت سے 13 سال قبل ، غار حراء میں نبوت سے نوازا، اس غار میں ایک روشنی ظاہر ہوئی اور ہدایت کا نور بلند ہوا اور جبرائیل کی آواز میں یہ آیات سنائی دیں:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ {3} الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ {4} عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ{5} ( )

اے رسول پڑھیے: اپنے پروردگار کے نام سے جس نے خلق کیا۔ اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی۔ اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

اس پہاڑ کے درمیان سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ آواز سنی: يا محمد أنت رسول الله، وأنا جبريل۔

یعنی: اے محمد(ص) آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں۔

اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پوری بشریت کے لیے رسول بنا کر بھیجا اور آپ(ص) کو لوگوں کو ڈرانے اور اللہ کے شدید ترین عذاب کی یاد دلانے کا حکم دیا۔

جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوں کی نافرمانی، حق سے انکار، کفر اور سرکشی نے ہم و غم اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تو اللہ نے آپ(ص) کو لوگوں سے پروردگار کی نعمتِ نبوت کے بارے میں گفتگو کرنے کی ترغیب دی کہ جس نبوت سے اللہ نے آپ(ص) کو مشرف کیا اور اسے پورے قریش میں سے صرف آپ(ص) کے لیے خاص قرار دیا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت ، شرک ، ناانصافی ، نسلی قومی و لسانی امتیازات ، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنی میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کو از سر نو زندہ و تابندہ کرکے عالم بشریت کو توحید ، معنویت ، عدل و انصاف اورعزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ ”خبردار ! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کواس کا شریک قرار نہ دینا تاکہ تم کو نجات و فلاح حاصل ہو سکے “۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اورلوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت جو درحقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے ، آپ سب کو مبارک ہو ۔ آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پرامن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے ۔ اس گفتگو میں ، ہم اسی موضوع کا جائزہ لیناچاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پیغمبر اسلام کی بعثت آج کے انسانوں کےلئے کن پیغامات کی حامل ہے۔ اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے ختمی مآب محمد مصطفیٰ ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسانوں کو کس چیز کی دعوت دی ہے ؟ در اصل انسان کے یہاں بعض خواہشیں اور فطری میلانات موجود ہیں ، یہ فطری میلان خود انسان کے وجود میں ودیعت ہوئے ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ مثال کے طور پر اچھائيوں کی طرف رغبت اور پسند ، تحقیق و جستجو کا جذبہ یا اولاد سے محبت وہ انسانی خصوصیات ہیں جن کو اس کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ ظاہر ہے دنیا میں آنے والا ہر وہ انسان کہ جس نے فطرت کی آواز پر لبیک کہی ہو حقیقی اور جاوداں انسان بن جائےگا کیونکہ یہ وجود انسانی خواہشات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے ۔

نبی کریم(ص) کو اپنے گھر والوں کو دعوتِ اسلام دینے کا حکم

علامہ ابن ہشام اپنی کتاب السيرة النبویہ میں لکھتے ہیں:

فجعل رسول الله يذكر ما أنعم الله عليه، وعلى العباد سِراً الى من يطمئن إليه من أهله.

یعنی: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خاندان کے قابل اعتماد اور قابل اطمینان لوگوں سے خفیہ طور پر اس نعمت کا ذکر کرتے جس سے اللہ نے آپ(ص) کو اور لوگوں کو نوازا ہے۔

اور یہ اس لیے تھا کہ آپ(ص) کو ابھی رسالت کا سرعام اعلان کرنے کا حکم نہیں ملا تھا جس کی وجہ سے آپ(ص) اپنے گھرانہ میں جسے قابل اعتماد اور اصلاح و ہدایت کے قابل سمجھتے اسے خفیہ طور پر نبوت سے آگاہ کرتے۔

ابن ہشام کی عبارت سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ بعثت کے بعد پہلے مرحلہ میں یہ خفیہ تبلیغ اور دعوتِ اسلام کا سلسلہ صرف اپنے گھر والوں میں منحصر تھا۔

اسی طرح دعوت اسلام کے دوسرے مرحلہ میں بھی اللہ نے اپنے رسول(ص) کو اپنے خاندان والوں میں سے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم ان الفاظ میں دیا: وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ.

یعنی: اوراپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

اس حکم کے آنے کے بعد رسول خدا(ص) نے دعوت ذوالعشیرہ کا اہتمام کیا اور اپنے قریبی ترین رشتے داروں کو اسلام کی دعوت دی اور اس دعوت ذوالعشیرہ کے بعد رسول خدا(ص) نے عمومی طور پر اپنی نبوت کا اعلان کیا اور ہر خاص و عام کو اسلام سے مشرف ہونے کی دعوت کا سلسلہ شروع کیا۔

27 رجب المرجب(بعثت نبیؐ) کی رات اور دن کی فضیلت اور اعمال.....


امام ابو جعفر جواد علیہ السلام سے مروی ہے کہ: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔ میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

ستائیس رجب کی رات کے اعمال اور دعائیں:

1- غسل کرنا.
2- بارہ رکعت نماز جو کہ امام محمد بن علي الجواد(عليهما السلام) سے مروی ہے.
3- زيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب(عليه السلام).
4- یہ دعا پڑھنا: "اَللّـهُمَّ إِنّي أَساَلُكَ بِالتَّجَلِي الأعْظَمِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ...".

یہ عیدوں میں سے بہت بڑی عید کا دن ہے کہ اسی دن حضور(ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے اور اسی دن جبرائیل (ع)احکام رسالت کے ساتھ حضور پر نازل ہوئے ، اس دن کیلئے چند ایک عمل ہیں:

ستائیس رجب کے دن کے اعمال:

1-غسل کرنا۔

2-روزہ رکھنا، اس دن کا روزہ ساٹھ مہینے کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔

3-کثرت سے درود شریف پڑھنا۔

4-زيارة خاتم الأنبياء وسيّد المرسلين محمد(صلى الله عليه وآله) وزيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب(عليه السلام)۔

5-تیس رکعت نماز پڑھنا ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 10 مرتبہ سورہ توحید پڑھنا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: