علامہ صافی: ہر فتنہ کو ختم کرنے اور ہر شیطانی گڑھے کو بھرنے کا بہترین حل نپی تلی اور معتدل گفتگو ہی ہے

روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (دام عزہ) کا کہنا ہے کہ علامہ صافی: ہر فتنہ کو ختم کرنے اور ہر شیطانی گڑھے کو بھرنے کا بہترین حل نپی تلی اور معتدل گفتگو ہی ہے۔ اس بات کا اظہار انھوں نے بین الاقوامی پندرہویں سالانہ ربیع الشہادہ ثقافتی سیمینار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہ جو بروز منگل 3 شعبان 1440ھ بمطابق 9اپریل 2019ء کو روضہ مبارک امام حسین(ع) میں اس عنوان کے تحت ہوا: (امام حسين -عليه السلام- اقوام کے لیے مینارِ ہدایت اور اقدار کی اصلاح کرنے والے ہیں)۔

علامہ صافی نے اپنے خطاب میں کہا: ماہِ مصطفی(ص) کی ابتدا، ذریتِ طاہرہ کی ولادت باسعادت اور مبارک مقام کہ جہاں نبی کریم(ص) کے عظیم وجود کی تجدید ہوئی کہ جب آپ(ص) نے فرمایا: (حسينٌ منّي وأنا من حسين) حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

اس زمانی اور مکانی خصوصیت، عراق اور بیرون ملک سے آپ علماء، فضلاء، مفکرین اور محترم شخصیات کی آپ کے اپنے ملک عراق میں ہمارے درمیان موجودگی میرے لیے باعث مسرت ہے میں آپ سب کو خوش آمدی کہتا ہوں اور کربلا کے دونوں مقدس روضوں کی نیابت میں آپ کی دمتت میں سلام پیش کرتا ہوں:السلامُ عليكم ورحمة الله وبركاته، امید ہے آپ عزیز بھائیوں کا یہاں قیام اور وقت اچھا گزرے گا۔

محترم بھائیو اور بہنو! ہم ہر سال اپنے عزیز و محبوب افراد کو ان معطر ایام شعبانیہ میں مدعو کرتے ہیں تاکہ وہ ہماری خوشیوں شریک ہو سکیں میں تمام حاضرین کی آمد اور محبتوں کا شکر گزار ہوں خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ممالک کو ہر برائی وپریشانی سے محفوظ رکھے۔

علامہ صافی نے اپنے خطاب میں مزید کہا: ہماری دینی اور تاریخی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو درپیش بڑے بڑے چیلجز کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کریں خاص طور پر ہمارے معاشروں کو دینی اعتقادات سے خالی کرنے کے لیے مختلف عناوین اور ناموں سے آنے والی افکار کے مقابلے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرے کو نقصان پہچانے والے اور مستقبل کے لیے خوف و خطرہ بننے والے بہت سے جرائم اور مشاکل سے نفسیاتی طور پر دور رکھنے میں دینی اعتقاد مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح علامہ صافی نے یہ بھی کہا: آج کے دور میں گفتگو کا دقیق علمی بنیادوں پر ہونا نہایت ضروری ہے اور اس میں ہر قسم کی سختی اور تنگ نظری سے اجتناب کرنا کہ جو مزید تفرقہ اور اختلافات کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اپنے دینی، مذہبی اور قومی تشخص سے درست بردار ہو جائيں بلکہ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ ہر اس رائے سے مربوط رہے جس کے ذریعے وہ خود کو خدا کے سامنے مبری الذمہ سمجھتا ہے، ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قوم وملت پر فخر کرے، لیکن اس کا تمسک اس طرح کا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جنگ وجدل کا میدان بن جائے یا وہ ہر فکر کو رد کر دے یا ہر مخالف فکر کے خلاف لڑائی کو نصب العین بنا لے اور اسلحہ اٹھانے بھی گریز نہ کرے۔ اس علاقے سے ماضی قریب میں نئے نئے ناموں کے ساتھ شر، کینہ اور جہالت کا طوفان گزرا ہے جس کے اثرات اب بھی باقی ہیں ان ناموں میں واضح ترین نام داعش کا تھا کہ جس نے تکفیری طریقہ کے ذریعے تفکیر کے میزان کو الٹنے کی کوشش کی، عقل کے معیار کو جہالت سے تباہ کرنے کی سعی کی اور اس کا اندھیرا ہر طرف پھیل گیا۔ اگر اللہ تعالی اس مصیبت کو دور نہ کرتا اور نججف اشرف میں موجود اعلی دینی قیادت کی زبان سے فتوی کی صورت میں غیبی مدت نہ پہنچتی تو ہم اس خیر وعافیت میں نہ ہوتے کہ جس میں آج ہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر فتنہ کو ختم کرنے اور ہر شیطانی گڑھے کو بھرنے کا بہترین حل نپی تلی اور معتدل گفتگو ہی ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: