امام جعفر صادق(علیہ السلام ) کے حالات زندگی کے چند پہلو.....

نام و لقب: آئمہ اہل بیت میں سے چھٹے امام کا نام مبارک ’’جعفر‘‘ اور مشہور لقب ’’صادق‘‘ہے۔ آپ کو عام طور پر امام جعفر صادق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

تاریخ و مقام ولادت و شہادت: حضرت امام جعفر صادق بن امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت 17ربیع الاول 80ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت 148ہجری میں مدینہ میں ہی ہوئی۔

والدہ: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی والدہ جناب ام فروة بنت قاسم بن محمد بن ابو بكر ہیں اور جناب ام فروۃ بنت قاسم کی والدہ اسماء بنت عبد الرحمن بن ابو بكر ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک فرمان میں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جس میں امام فرماتے ہیں: ولدني أبو بكر مرتين.

اولاد: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد کی تعداد دس ہے کہ جن میں سے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں کہ جن کے نام درج ذیل ہیں:

(1): اسماعيل، (2): عبداللہ، (3):أسماء کہ جن کی کنیت ام فروة ہے

ان کی والدہ جناب فاطمہ بنت حسين بن علی بن حسين ہیں۔

(4): امام موسى كاظم(ع) ، (5): محمد کہ جو "ديباج" کے نام سے معروف ہیں۔ (6): اسحاق، (7):فاطمہ كبرى

ان کی والدہ جناب حميدة بربريہ ہیں۔

(8): عباس، (9):علی، (10): فاطمہ صغرى

یہ مختلف ماؤں کے بطن سے ہیں۔

امام صادق(ع) کے بارے میں علماء کے اقوال:

میں نے اس کتاب کے گزشتہ کچھ صفحات میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے علم، ان کی درسگاہ اور ان سے مختلف علوم سیکھنے اور روایات و احادیث نقل کرنے والوں کی بڑی تعداد کے بارے میں چند باتیں لکھی تھیں اب ہم یہاں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں علماء کے چند اقوال کا ذکر کرتے ہیں:

اہل سنت کے معروف عالم دین شيخ ابو زہرة اپنی کتاب الامام الصادق میں لکھتے ہیں: امام جعفر نے علم کے گہوارے اور منبع و مرکز میں پرورش پائی اور بیتِ نبوت میں پروان چڑھے کہ جہاں انہوں نے علم نبوت کو سینہ با سینہ وراثت میں اپنے بزرگوں سے حاصل کیا اور اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہر میں زندگی گزاری اور اس پاک و طاہر پودے سے غذا کھائی، انہوں نے جو کچھ بھی سیکھا جو کچھ بھی انھیں ملا جس چیز کا بھی انھیں تجربہ حاصل ہوا اس سے ان کے دل میں حکمت و دانائی کا نور روشن ہو گیا۔

امام جعفر اپنے زمانے میں فکری طاقت تھے، انھوں نے صرف اسلامی دروس، علومِ قرآن، سنتِ نبوی اور عقاید کی تدریس پہ اکتفا نہ کیا بلکہ انھوں نے کائنات کے علوم و اسرار کی تعلیم و تدریس کی طرف رُخ کیا اور اپنی ہر چیز پر دسترس رکھنے والی عقل کے ذریعے افلاک کے ڈھانچے و ڈیزائن اور سورج، چاند اور ستاروں کے مداروں کو کھرید ڈالا۔ اسی طرح انھوں نے انسانی جسم و روح کے حوالے سے علوم کی تدریس پہ بھی خاص توجہ دی۔

اگر تاریخ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ سقراط نے علمِ فلسفہ کو آسمان سے اتار کر انسان تک پہنچایا تو تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ امام جعفر نے لوگوں کو آسمان، زمین، انسان اور ادیان کی شریعتوں سے متعلق ہر چيز کی تعلیم دی۔

امام جعفر تمام اسلامی علوم میں امام کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جن کی طرف تمام اسلامی علوم کو جاننے کے لیے رجوع کیا جاتا ہے، وہ تمام لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور فقہاء کے درمیان اختلافِ رائے کی صورت میں اِن کی ہی بات فیصلہ کن اور صحیح شمار ہوتی ہے، امام ابو حنیفہ انہی کو فقہ میں اپنا استاد مانتے ہیں۔

جہاں تک امام جعفر کی ذاتی و عقلی صفات کا تعلق ہے تو وہ اپنی صفات کی بدولت تمام اہلِ زمین سے بلند ہیں اور اہلِ زمین کو کہاں سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اہلِ سماء سے خود کا تقابل و موازنہ کریں؟ امام جعفر حق سے تمسک، روح و نفس کی پاکیزگی و ریاضت، علم اور عبادت کی طرف توجہ، دنیا اور اس کے مآرب سے دوری اور اندھیرے کو ختم کرنے والی بصیرت میں بلندیوں کی انتہا پہ فائز ہیں اور وہ ایسے اخلاص کے مالک تھے کہ جس سے بلند کسی کا اخلاص نہیں ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے وہ اخلاص کے مرکز و منبع اور شجرِ نبوت سے ہیں اور اگر عترتِ رسول(ص) اور خدا کی بے نیام سونتی ہوئی تلوار اور اسلام کے شہسوار علی بن ابی طالب کے پوتوں میں اخلاص نہ ہو گا تو پھر کس میں ہو گا؟ حضرت علی(ع) کے پوتوں نے نسل در نسل اپنے آباء و اجداد سے اور ہر فرع و شاخ نے اپنے اصل و تنے سے اخلاص کو وراثت میں حاصل کیا، وہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر محبت کرتے تھے اور اللہ کی ہی رضا کے حصول کے لیے نفرت کرتے تھے اور اِسے ایمان کے اصولوں اور خدا پہ یقین کے مظاہر میں شمار کرتے تھے۔

یہ اُس بہت زیادہ اور طویل گفتگو کا بہت ہی کم حصہ تھا کہ جو ابو زہرة نے اپنی كتاب الامام الصادق میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں کی ہے۔

شہرستانی اپنی کتاب الملل والنحل میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں: وہ دین اور ادب میں بہت زیادہ صاحبِ علم، حکمت و دانائی میں کامل ترین شخصیت اور خواہشات کے حوالے سے بے انتہا زہد و پرہیزگاری اور مکمل تقوی کے مالک تھے۔

كتاب مطالب السؤل کے مؤلف کہتے ہیں: جہاں تک اُن (امام جعفر) کے مناقب اور صفات کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی شمار کرنے والے کی گنتی سے زیادہ ہیں، ان کے مناقب کی انواع و اقسام بصارت کی آنکھیں کھلی رکھنے والے کی عقل کو حیرت زدہ کر دیتی ہیں، اُن کے دل پر مسلط بے تہاشا علوم کی حالت یہ ہے کہ جن احکام کی دلیل و علت درک نہیں ہو سکتی اور جن علوم کا احاطہ کرنے سے عقلیں قاصر ہیں اُن احکام و علوم کی نسبت اُن (امام جعفر) کی طرف دی جاتی ہے اور انھیں اُن (امام جعفر) سے نقل کیا جاتا ہے۔

اگر ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں علماء اور محققین کے اقوال لکھنا شروع ہو جائيں تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہے۔

امام جعفر(ع) کے مناقب:

ابو زہرة لکھتے ہیں: بہت سے مفسرين کا کہنا ہے کہ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا {سورۃ الإنسان/آیت8} والی آیت حضرت علی بن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ علی بن ابی طالب صحابہ میں سب سے زیادہ سخی تھے بلکہ وہ سارے عرب سے بڑے سخی تھے اور اُن کے بعد اُن کی اولاد بھی سخاوت میں اُنہی کی مانند تھی۔

ایک دفعہ ایک ضرورت مند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آیا تو امام جعفر (ع) نے اسے چار سو درہم عطا کیے جِنہیں لے کر وہ شکریہ ادا کرتا ہوا چلا گیا پھر امام جعفر (ع) نے اُسے واپس بلایا اور فرمایا: سب سے بہترین صدقہ وہ ہوتا ہے جو بے نیاز و مالدار کر دے اور ہم نے تمہیں بے نیاز و مالدار نہیں کیا لہذا یہ انگوٹھی لے لو میں نے اسے دس ہزار درہم میں لیا تھا۔

جب رات ہو جاتی امام جعفر (ع) روٹیوں، گوشت اور دراہم سے بھری تھیلیاں بوری میں ڈال کر کندھے پہ رکھ لیتے اور اپنے آباء و اجداد کی مانند اس طرح سے ضرورت مندوں میں انھیں تقسیم کرتے کہ وہ یہ جان ہی نہ پاتے کہ ان کو عطا کرنے والا کون ہے۔

کتاب حلية الأولياء میں لکھا ہوا ہے کہ امام جعفر بن محمد(ع) ضرورت مندوں کو اتنا عطا کرتے کہ ان کے اپنے اہل و عیال کے لیے کچھ نہ بچتا۔

اگر دو افراد مال کی وجہ سے آپس میں جھگڑتے تو امام جعفر صادق(ع) اپنا ذاتی مال دے کر ان میں صلح کرواتے۔

ایک دفعہ امام جعفر صادق(ع) نے اپنے غلام کو کوئی چیز لینے کے لیے بھیجا تو وہ کافی دیر گزرنے کے بعد بھی نہ آیا لہذا جب امام جعفر(ع) خود اس کی تلاش میں نکلے تو اسے ایک جگہ سویا ہوا دیکھا امام(ع) اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور اسے کسی چیز سے ہوا دینا شروع کر دی۔

منصور دوانیقی نے کئی بار امام جعفر صادق علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن جب بھی وہ امام کو دیکھتا تو اس پر ہیبت طاری ہو جاتی اور وہ اپنے ارادے پہ عمل کرنے کی بجائے ان کا احترام کرتا۔ منصور نے امام جعفر(ع) کو لوگوں سے ملنے جلنے سے روک دیا تھا اور اسی طرح سے لوگوں کے امام جعفر(ع) سے ملنے پہ بھی پابندی لگا دی تھی۔

نوٹ:اس نوٹ میں ہم وہ بات ذکر کریں گے جو سيد امين نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ کی چوتھی جلد میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت بیان کرتے ہوئے ذکر کی ہے اور یہ بات شیعت کے مصصم عقاید کا حصہ ہے:

ہم نے ہر امام کے الگ الگ اور مختلف مناقب اور فضائل بیان کیے ہیں اور جو فضائل یا مناقب ہم نے کسی ایک امام کے بارے میں ذکر کیے ہیں وہ دوسرے آئمہ کے بارے میں ذکر نہیں کیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو فضیلت ایک امام میں ہے وہ دوسرے آئمہ میں موجود نہیں ہے... یہ بات واضح رہے کہ تمام آئمہ ایک ہی طرح کے فضائل و مناقب اور اعلی ترین صفات کے مالک ہیں اور جو صفاتِ حمیدہ اور فضائل کسی ایک امام کو حاصل ہیں وہ دوسرے تمام آئمہ میں بھی موجود ہیں تمام آئمہ ایک نور اور ایک طینت ہیں اور تمام آئمہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے ہر کمالاتی صفت میں افضل و اکمل ہوتے ہیں۔

لیکن ہر امام کے زمانے کے حالات اور مقتضیات دوسرے آئمہ کے زمانے سے مختلف تھے جس وجہ سے ہر امام کی ظاہر ہونے والی کمالاتی صفات دوسرے آئمہ سے مختلف تھیں اور اسی طرح ہر امام نے جو موقف اختیار کیا اور جس لائحہ عمل کو اپنایا وہ دوسرے آئمہ سے مختلف تھا مثلاً امير المؤمنين حضرت علی بن ابی طالب(ع)اور حضرت امام حسین(ع)سے شجاعت کا ظہور باقی آئمہ سے ظاہر ہونے والی شجاعت کی مانند نہیں ہے حضرت علی(ع) نے رسول اعظم(ص) کی زندگی میں مشرکین اور کفار کے خلاف اور اپنی ظاہری خلافت کے دوران بیعت شکنوں، باغیوں اور فتنہ گروں کے خلاف جنگوں میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے۔ حضرت امام حسين(ع) نے ظالموں کے خلاف ایک الگ انداز میں واقعہ كربلا کے دوران اپنی شجاعت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ جبکہ باقی آئمہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے لیکن اس کے باوجود اُن کے بارے میں کسی جنگ میں شجاعت کا مظاہرہ کرنے کا کوئی واقعہ تاریخ میں مذکور نہیں ہیں کیونکہ باقی آئمہ اپنے زمانے کے حالات اور تقاضوں کے پیشِ نظر صبر اور غیر عسکری طریقہ اختیار کرنے پہ مامور تھے۔

حضرت امام محمد باقر(ع) اور حضرت امام جعفر صادق(ع) نے جس طرح سے اپنے علوم کو دنیا کے سامنے ظاہر کیا اور اُن کی نشر و اشاعت کا کام کیا اِس طرح سے باقی تمام آئمہ نے نہیں کیا کیونکہ ان دونوں اماموں کو ایک ظالم حکومت کے اختتام اور دوسری ظالم حکومت کی ابتدا کے زمانے میں خوف سے خالی کچھ عرصہ میسر آیا جس میں انہوں نے علمی ترقی اور علوم آل محمد کی نشر واشاعت کے لیے بھرپور کوششیں کیں جبکہ باقی تمام آئمہ نے سب لوگوں سے زیادہ علم رکھنے کے باوجود ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کو ایسا موقع فراہم ہی نہیں ہوا جس کی وجہ سے وہ علمی نشر و اشاعت کے لیے زیادہ کام نہیں کر سکے۔

ویسے تو تمام آئمہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے سخی اور کریم فرد تھے لیکن ہو سکتا ہے کہ تاریخ میں ہمیں کسی ایک امام کی طرف سے کی جانے والی سخاوت اور دی جانے والی خیرات باقی آئمہ سے زیادہ لگے جس کی وجہ اُس امام کے زمانے میں باقی آئمہ کے زمانوں کی نسبت ضرورت مندوں کی کثرت ہو سکتی ہے۔

تمام آئمہ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے لیکن ہو سکتا ہے کہ تاریخ میں ہمیں کسی ایک امام کی عبادت باقی آئمہ سے زیادہ لگے جس کی وجہ اُس امام کے زمانے کے بعض حالات اور باقی آئمہ کی عبادت و ریاضت سے لوگوں کی لاعلمی ہو سکتی ہے۔

تمام آئمہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے صابر اور بُردبار تھے لیکن ہو سکتا ہے کہ تاریخ میں ہمیں کسی ایک امام کا صبر و بُردباری باقی آئمہ سے زیادہ لگے جس کی وجہ باقی آئمہ کی نسبت اُس امام کو پہنچائی جانے والی اذیتوں کی کثرت ہو سکتی ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: