امام حسین (ع) نے سعيد بن عبد الله الحنفي کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا: تم بہشت میں مجھ سے پہلے موجود ہو گے۔

سعید بن عبد الله حنفی امام عالی مقام علیہ السلام کے مخلص اور جانثار اصحاب میں سے تھے اور عاشورہ کے دن نماز ظہر کے وقت زہیر بن قین کے ساتھ امام حسین کی نماز پڑھتے وقت حفاظت کرتے رہے اور تیر اپنے جسم کے اوپر روکتے رہے اور امام حسین علیہ السلام کے نماز ختم کرنے کے بعد تیروں کے زخموں کی وجہ سے سیدالشہداء امام حسین کے قدموں میں جام شہادت نوش کیا۔

سعید بن عبد الله حنفی کوفہ کے ان شہدا میں سے تھے کہ جو کوفیوں اور امام حسین کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں خطوط پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ اسی طرح مسلم بن عقیل کا خط امام حسین(ع) کو پہنچانے کے بعد وہ امام حسین(ع) کے کاروان کے ساتھ ہو گئے۔ سعید نے شب عاشورا امام حسین(ع) کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے قسم اٹھا کر کہا: اگر مجھے ستّر مرتبہ مارا جائے اور زندہ کیا جائے تو میں پھر بھی امام حسین(ع) کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔

نسب

سعید قبیلۂ بنی حنیفہ بن لجیم سے تھے جو قبیلۂ عدنان کی بنی‌ بکر بن وائل کی ذیلی شاخوں میں سے ایک تھی۔ سعید کوفہ کے رہنے والے تھے۔اور شجاعت و عبادت میں شہرت رکھتے تھے۔ زیارت الشہدا میں ان کا نام سعد ذکر ہوا ہے۔[

واقعہ کربلا

سعید بن عبداللہ اور ہانی بن ہانی سبیعی کوفیوں کی جانب سے تیسرا خط لے کر امام حسین کے پاس گئے۔اس خط کے لکھنے والے شَبَثُ بن رِبعی، حَجّار بن اَبجَر، یزید بن حارث، یزید بن رویم، عزرة بن قیس، عمرو بن حجاج و محمد بن عمیر تھے۔بعض کا خیال ہے کہ سعید کو یہ ذمہ داری سونپنے کا مقصد انکی شخصیت کی وجاہت تھی کہ کوفی امیدوار تھے کہ ان کے ذریعے امام حسین کو کوفے آنے کیلئے قانع کیا جا سکتا ہے۔

امام حسین(ع) نے سعید کے ذریعے اس خط کا جواب ارسال کیا اور لکھا:

میں نے مسلم بن عقیل کو اپنے سفیر کے عنوان سے کوفہ روانہ کیا ہے۔ جب مسلم کوفہ پہنچے تو انہوں نے تقریر کی۔ عابس بن ابی شبیب شاکری اور حبیب بن مظاہر نے خطبہ پڑھا۔ ان دو کے بعد سعید بن عبداللہ اٹھے اور قسم کھا کر کہنے لگے: وہ امام حسین کی مدد کیلئے قطعی ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلم نے اس مجمع میں سعید بن عبداللہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ امام کو کوفہ آنے کی دعوت دیں۔ سعید مکہ واپس آئے اور مسلم بن عقیل کا خط امام کو دیا اور خود امام کے قافلے کے ساتھ ہو گئے۔

کربلا میں موجودگی

شب عاشورا امام(ع) نے اپنے اصحاب کو خیام کی پشت پر جمع کیا اور اپنی مشہور تقریر میں کہا وہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر اور اس رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے چلے جائیں۔ سعید یہ سن کر اٹھے ہوئے اور کہا:

یا ابن رسول اللہ(ص)! خدا کی قسم! ہم آپ کی نصرت سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے .... بخدا! اگر مجھے قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، مجھے جلایا جائے اور میری خاک ہوا میں اڑا دی جائے لیکن میں پھر بھی آپ کی حمایت اور نصرت سے ہاتھ نہیں کھینچوں گا۔

شہادت

وہ روز عاشورا نماز ظہر کے بعد شہید ہوئے۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک سعید کی شہادت دسویں محرم کے دن زوال آفتاب اور نماز ظہر کے بعد ہوئی۔

عاشورا کے روز جب امام حسین(ع) نمازادا کر رہے تھے تو سعید بن عبداللہ امام عالی مقام کی حفاظت کے لئے آپ (ع) کے سامنے ڈھال بن کرکھڑے ہو گئے اور سامنے سے آنے والے تیروں کو اپنے چہرے، سینے، ہاتھوں اور پہلو پر روکتے رہے تا کہ تیر مبادا امام حسین(ع) کو نہ لگیں۔نقل کرتے ہیں کہ جب زخموں سے نڈھال ہو کر زمین پر گرے تو یہ دعا پڑھ رہے تھے:

خدایا! جس طرح تو نے قوم عاد و ثمود پر لعنت کی تھی اسی طرح کوفہ کی سپاہ کو بھی مورد لعن قرار دے۔ خدایا! میرا سلام و درود اپنے پیغمبر کو پہنچا اور جو میں نے اپنے جسم پر زخموں کے بدلے میں درد و رنج جھیلے ہیں انہیں ان تک پہنچا؛ کیونکہ میں پیغمبر کی حمایت و نصرت کی پاداش و اجر کا طلبگار ہوں۔

پھر اپنا رخ امام حسین کی جانب کیا اور کہا: اے فرزند رسول! کیا میں نے اپنے عہد کو نبھایا؟ امام نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہاں کیوں نہیں، تم بہشت میں مجھ سے پہلے موجود ہو گے۔منقول ہے کہ شہادت کے وقت تلوار و نیزوں کے زخموں کے علاوہ ۱۳ تیر ان کے جسم میں پیوست تھے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: