تصویری رپورٹ: کربلا میں سات محرم کو حضرت عباس(ع) کی شہادت کا پرسہ پیش کرتے ماتمی جلوس

ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ،ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“

ایک دن امام سجاد (ع) کی نگاہ عبید اللہ بن عباس پر پڑتی ہے انکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اوراپنے چچا عباس کو یاد کر کے فرماتے ہیں

خدا رحمت کرے چچا عباس کو کہ جنہوں نے اپنے بھائی کی راہ میں ایثار اور فداکاری کی۔ اور اپنی جان کو بھی دے دیا۔ اس طریقہ سے جانثاری کی کہ اپنے دونوں بازوں قلم کروا دیے۔ خدا وند عالم نے انہیں بھی جعفر بن ابی طالب کی طرح دو پر دئیے ہیں کہ جن کے ذریعے جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں عباس کا خدا وند عالم کے ہاں ایسا عظیم مقام ہے جس پر تمام شہید روز قیامت رشک کریں گے۔

امیرالمومنین (ع) سے بھی آپ کے مقام و مرتبے اور فضل و کمال کے بارے میں بھی بہت سی روایات نقل ہیں۔

کربلاؑ میں ہر سال سات محرم االحرام کو حضرت عباس(ع)کی فداکاری ، جانثاری اور وفاداری کو یاد کرتے ہوئے جلوس عزاء نکالے جاتے ہیں اور مجالس عزاء میں خطباء اور ذاکرین حضرت عباس(ع) کے ایمان،شجاعت، وفاداری و جانثاری اور شہادت کا ذکر کرتے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابوالفضل العباس (علیہ السلام) امام الحسین علیہ السلام کے اصحاب میں سب سے زیادہ جاننے والے اور بہادر تھے۔حضرت عباسؑ حَسین و خوبرو تھے۔ ضرت عباسؑ نہایت نورانی چہرہ کے مالک تھے جو آپ کے کمال و جمال کی نشانیوں میں شمار ہوتا تھا اسی بنا پر آپ کو قمر بن ہاشم کا لقب دیا گیا تھا۔ آپ بنی ہاشم کے خاص مردوں میں سے شمار ہوتے تھے اور آپ کا بدن مضبوط، لمبے قد کے تھے اس حد تک کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاوں زمین تک پہنچ جاتے تھے۔ کلباسی کے مطابق ایک اور خصوصیت حضرت عباسؑ کی جس کی دوست اور دشمن سب نے تعریف کی ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے وہ آپ کی شجاعت ہے۔

اگرچہ حضرت عباس علیہ السلام کی فداکاری ، جانثاری اور وفاداری کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن تاریخ عباس بن علی (ع) کے خلعت کمالات کو میلا نہیں کر پائی۔ آج عباس کا نام عباس نہیں وفا ہے، ایثار ہے اطاعت ہے تسلیم ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: